علی رضا
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے بعد قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 2846 واقعات رپورٹ ہوئے۔ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں ان واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم کرنے والوں میں اساتذہ سے لے کر گھر کے افراد تک شامل پائے گئے ہیں۔
تحقیقات کے دوران ملزمان سے بچوں پر جنسی تشدد پر مبنی ملنے والا مواد(فلمیں، تصویریں) اس بات کا ثبوت ہے کہ ان واقعات اور چائلڈ پورن میں بھی ایک تعلق موجود ہے۔ چائلڈ پورن بیشتر ممالک میں پابندی کے باوجود جاری ہے۔ چائلڈ پورن جیسے ظالمانہ کاروبار کے پیچھے منظم مافیا ہے جو منافع حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ اور نئے سے نیا’مواد‘ مارکیٹ میں لاتے ہیں۔
چائلڈ پورن سرمایہ دارانہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اسے صرف طاقتور گروہوں تک محدود کر کے نہیں دیکھا جا سکتا جو منظم انداز میں جرائم کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جنسی استحصال کے ذریعے منافع کمانے کے لیے متعارف کروائی گئی پورن انڈسٹری کے’مواد‘ کو پہلے تو پوری دنیا میں پھیلایا گیا۔ جب لوگ اس ’مواد‘ سے اکتا گئے تو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پورن کی نئی نئی اقسام متعارف کروائی گئیں جن کی تعداد شاید اس تحریر کے الفاظ سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے ایک قسم چائلڈ پورن ہے۔
انسان کی شخصیت کی تعمیر اس کے ارد گرد کے ماحول سے ہوتی ہے اور وہ ارد گرد ہونے والے اعمال سے سیکھتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کس عمل سے باز رہنا ہے نیز خود کو سکون پہنچانے کے کون سے ذرائع ہیں۔ آج انٹرنیٹ انسان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ جب انسان اساتذہ، رشتہ داروں اور دوسرے افراد کو بچوں کے ساتھ جنسی تعلق سے لذت حاصل کرتے دیکھتا ہے تو اس میں بھی ان ذرائع کو جائز ذرائع مان کر اس پر عمل کرنے کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجرمان کو سخت سزائیں دینے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن ہم نے قصور کے واقعہ میں زینب کے قاتل عمران کو لٹکا کر دیکھ لیا۔ ہمیں عمران کی پھانسی کے باوجود ان واقعات میں اضافہ ہی نظر آ رہا ہے۔ اگر ہمیں اس مسئلے سے نپٹنا ہے تو اس نظام کو لگام ڈالنی پڑے گی جو اس کا سبب ہے۔