صائمہ بتول
اس بار یکم مئی‘ یوم مزدور ’ایسے حالات میں بنایا جا رہا ہے ،جہاں ایک طرف جنگ وجدل کی کیفیت ہے، اور دوسری جانب سپلائی چین بری طرح متاثر ہونے کے باعث افراطِ زر ایک ڈراونا خواب بن کر انسانیت کے سروں پہ منڈلا رہا ہے۔ پاکستان جیسا سماج جس کا پیداواری شعبہ پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں آئی ایم ایف کی ایما پر حکمران طبقہ نجکاری کے کاری وار کررہا ہے اور رہے سہے روزگار کو بھی چھیننے کے درپے ہے۔
ضروریات زندگی پہلے ہی محنت کشوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ سکول جانے کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے۔کام کے دوران سیفٹی کے قوانین کا چنداں خیال نہیں رکھا جاتا۔کام کے دوران مزدوروں کا زخمی ہونا یا ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا معمول کی بات ہے۔ کام کے اوقات کار اور فی گھنٹہ اجرت کے حوالے سے اگر کسی قانون کا کہیں کسی دستاویز میں ذکر کیا بھی گیا ہوتو عملاً اس کے اطلاق کے حوالے سے کوئی پالیسی ،کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ ایسے میں مزدوروں کے کام کے اوقات کار 16 سے 18 گھنٹے ،بنا اضافی اجرت کے ،بڑھا دینے سے باز رکھنے کے لیے بھی کوئی قاعدہ قانون موجود نہیں ہے ۔ دن رات مشقت کرنے کے باوجود بھی مہنگائی کے اس عفریت میں محنت کشوں کے حصے میں فاقہ کشی ہی آتی ہے۔
کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا محنت کشوں کو 1886 میں بھی تھا۔ جب مزدوروں نے حالات کے جبر سے تنگ آ کر، کام کے اوقات کار کے تعین اور دیگر مطالبات کے گرد علم ِ بغاوت بلند کیا تھا ۔امریکہ کے شہر شکاگو میں سرمایہ دارانہ وحشت نے محنت کشوں کے سفید علم کو انکے لہو میں ڈبو کر سرخ کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد کھیتوں، کھلیانوں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جانے لگا۔
پاکستان میں مزدوروں کی حالت زار پہ نظر دوڑائی جائے تو یہاں 99 فیصد مزدوروں کے پاس یا تو سرے سے کسی یونین کا حق موجود ہی نہیں ہے، یا ان مزدوروں کو ادراک ہی نہیں ہے کہ انکے حقوق بھی ہیں ،یا اپنے ان حقوق کے لیے منظم ہونے کا کوئی پلیٹ فارم بھی وجود رکھتا ہے۔ اکثریتی محنت کشوں کا روزگار نجی شعبے سے منسلک ہے اور اس میں بھی بڑی تعداد ایسی ہے جس کا روزگار کالی معیشت یا غیر دستاویزی معیشت سے منسلک ہے ،جہاں پر ایسی بات کی گنجائش ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔
سرکاری ملازمین ، جو ایک سے دو فیصد کے قریب ہیں، اور کسی حد تک یونینز کا ادراک رکھتے ہیں،ان میں سے بھی اگر ٹریڈ یونین سیاست سے منسلک محنت کشوں کو شمار کیا جائے تو وہ ایک فیصد کا بھی ایک فیصد ہی بنتا ہو گا۔ایسی کیفیت میں ان ٹریڈ یونینز کی قیادت میں کام چور، مفاد پرست، بالا افسران کے ایلچی اور مخبروں کا ٹولا براجمان ہے ،جس کا کام مزدورں کی جدوجہد کے ذریعے اپنے لیے کام سے چھوٹ اور بہتر سہولیات اور مراعات کا حصول ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں موت رقص کرتی ہے۔حکومت نے کئی دعوے کیے کہ کان کنوں کو درپیش خطرات ختم کیے جائیں گے ،لیکن حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود ہزاروں کان کنوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
بلوچستان جیسے علاقوں میں مزدوروں کی زندگی کی خطرناک حقیقت سامنے آ رہی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں موت زمین پر ایک خوفناک حقیقت بن چکی ہے۔
محکمہ معدنیات کے مطابق ہرنائی، دکی ،کوئٹہ، شانگلہ اور کچھی سمیت بلوچستان کے 7 اضلاع میں کوئلے کی 2800 کانیں موجود ہیں ،جن میں تقریبا 70 ہزار سے زیادہ کان کن کام کرتے ہیں ۔مزدوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم شانگلہ مائنز ویلفیئر آرگنائزیشن کے عہدے دار عابد یار کے مطابق اوسطاً ہر سال پاکستان میں 200 سے 250 مزدور کوئلے کی کانوں میں کام کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ان میں زیادہ تر تعداد شانگلہ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی ہے ۔پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے ریکارڈ کے مطابق سال 2022 میں کل 280 حادثات پیش آئے ،جن میں بلوچستان میں 136جبکہ خیبر پختون خواہ میں 80 ،پنجاب میں 46 ،صوبہ سندھ میں 18 حادثات پیش آئے۔
چائلڈ لیبر پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پہ موجود ہے۔غریب والدین کم عمری میں ہی اپنے بچوں سے محنت مزدوری کروانے لگ جاتے ہیں ۔12 جون کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000 کے عشرے کے بعد سے دنیا چائلڈ لیبر کے خاتمے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ،لیکن بحرانوں، وباؤں کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،جس کی وجہ سے آج 16 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کرنے پہ مجبور ہیں۔ بچوں سے مشقت کروانے میں افریقہ سب سے آگے ہے۔ وہاں پر تقریبا 7 کروڑ 20 لاکھ بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں۔ اس کے بعد ایشیا اور دیگر ممالک آتے ہیں۔
پاکستان کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق 9.8 فیصد بچے چائلڈ لیبر پرمجبور ہیں، جن کی عمریں 10 اور 14 سال کے درمیان ہیں۔ یہ بچے اینٹوں کے بھٹوں ،کھیتوں ،ورک شاپوں،فیکٹریوں اور گھروں میں کام کر رہے تھے۔
پاکستان میں گھروں میں ملازمت کرنے والے بچے بہت سی مشکلات سے دو چار ہیں۔ آئے روز ایسے بچوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ وائرل ہوتی ہیں ،جن میں ان معصوم بچوں پہ تشدد کیا جا رہا ہوتا ہے ،جو گھروں میں ملازمت کرتے ہیں ۔بچوں پر یہ تشدد اکثر ان کی موت کا باعث بھی بنتا ہے ،جس پر چند ہفتے اذیت فروش تبصروں کا ایک بازار گرم رہتا ہے اور پھر سے وہی موت سی خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
ایسے میں صنفی جبر کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔جنوبی ایشیا میں عورت کی مشقت کو کام کم ہی سمجھا جاتا ہے ۔بچوں کی نگہداشت سمیت دیگر گھریلو ذمہ داریاں خواتین 24 گھنٹے نبھاتی ہیں۔ بیماری کی صورت میں بھی ان کو گھریلو مشقت سے چھٹی نہیں ملتی۔
پاکستان میں اقلیتی برادری کے لیے سینٹری ورکرز کے علاوہ دیگر شعبوں میں کم ہی نوکریاں ہوتی ہیں ۔سینٹری ورکرز کی بھرتی کے لیے شائع ہونے والے اشتہاروں میں بھی بعض اوقات لکھا جاتا ہے کہ صرف مسیحی یا ہندو ہی درخواست دے سکتے ہیں۔سینٹری ورکرز موت کے منہ میں جا کے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں ۔ انہیں بعض اوقات 25 فٹ سے بھی زیادہ گہرائی والے گٹر میں اترنا پڑتا ہے ۔ گٹر میں اترتے وقت انہیں اپنے زندہ باہر آنے کی امید کم ہی ہوتی ہے ،کیونکہ ان کے پاس مناسب آلات چہرے کا ماسک، آکسیجن سلنڈر، گیس ڈیٹیکٹر، ڈرائی سوٹ اور جوتے نہیں ہوتے۔ سینٹری ورکرز کی اموات گٹر میں ڈوبنے ،زہریلی گیس اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔
سینٹری ورکرز کی اجرت بھی کم ہے اور ان کے اوقات کار بھی مختلف ہیں ۔اکثر و بیشتر ان کو اپنی ڈیوٹی ختم کرنے پر بھی ڈیوٹی دینی پڑتی ہے ۔برسات میں آنے والے سیلابوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے اور اس ڈیوٹی کا انہیں معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سے نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ممالک محنت مزدوری کرتی ہے۔بے روزگاری سے تنگ آ کر نوجوان غیر قانونی طریقے سے یورپ کی طرف سفر پہ نکل پڑتے ہیں ،جن میں سے زیادہ تر سمندر کی لہروں میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ جو قلیل تعداد یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہے ،وہ بھی زندگی کا آدھا حصہ جیلوں میں کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔بہت ہی کم نوجوان وہاں پہ کوئی معمولی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ خاندان کا پیٹ بھی پالتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی منافع اور شرح منافع پر ہے۔محنت کش پوری دنیا میں سستے داموں محنت بیچنے پہ مجبور ہیں۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود ہے۔ اکثریتی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ مزدور جو اس نظام کا پہیہ چلا رہے ہیں۔ ان کے پاس دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ ایسے حالات میں سرمایہ داری کے جبر سے نکلنے کے لیے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے محنت کش طبقے کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ بین الاقوامی جڑت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا تفریق رنگ، نسل، قوم، مذہب ذات ایک طبقے کی صورت آگے بڑھے اور ‘دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ’ کے نعرے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس جابر سرمایہ دارانہ نظام کو پاش پاش کر دے۔