پاکستان

جموں کشمیر: کم عمر بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم

صائمہ بتول

خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے زیادہ تر کیسسز میں ایک مخصوص سوچ کے مطابق خواتین کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ایک مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ خواتین کا لباس ان کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی بنیادی وجہ ہے۔تاہم بچوں کے ساتھ، معصوم بچیوں کے ساتھ اور بالخصوص قبر میں مدفون مردہ اجسام کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے کیسسز اس سوچ کی یکسر نفی کرتے ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کیسسز میں ان کے قریبی رشتے دار،اور بعض اوقات سکول یا مدرسے کے اساتذہ شامل ہوتے ہیں۔والدین خوفزدہ ہیں کہ آخر ایسی صورتحال میں وہ کریں تو کیا، آؒخر وہ کون سا ایسا طریقہ کار اپنائیں جس سے وہ اپنے بچوں کو محفوظ زندگی دے سکیں،کیونکہ خطے میں بچوں کی حفاظت کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی موثر پالیسی وضع نہیں کی گئی ہے۔

2020 میں 18 سال سے کم عمر(نابالغ بچوں) کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو سزائے موت یا جنسی صلاحیت سے محرومی کے حوالے سے اسمبلی میں بل پیش ہوا تھا،جس میں دفعہ 377A کے تحت سزائیں دینے کی پالیسی زیر غور تھی،لیکن ایسے قوانین منظور ہونے کے بعد بھی کم ہی نافذ العمل ہوتے ہیں۔

ماضی میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی پرورش ہوتی تھی، جہاں بچوں کی ذمہ داری صرف ماں باپ پر نہیں بلکہ خاندان کے دیگر افراد پر بھی برابر عائد ہوتی تھی۔موجودہ عہد میں اگر ہم دیکھیں تو معاشی زوال پذیری نے غیر محفوظ پن کو جنم دیتے ہوئے سماجی تنزلی کا اظہار کیا اور خاندان کی پرانی شکلیں ختم ہو کر صرف بیوی،شوہر اور بچوں تک محدود ہو تی جارہی ہیں۔ معاشی جبر کی وجہ سے باپ روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتا ہے یا ملک کے اندر ہی دن بھر اپنی محنت بیچتا ہے اور مائیں پرائیویٹ سیکٹرز میں نوکری کر رہی ہوتی ہیں۔یوں بچے کی تربیت کے لیے ان کے پاس انتہائی محدود وقت ہوتا ہے،اور بچہ عدم اعتماد کا شکار ہو جاتا ہے اور باآسانی ایسے نفسیاتی مریضوں کی درندگی کا شکار بن جاتا ہے۔

معاشی گراوٹ، سماجی تنزلی اور ثقافتی زوال پذیری کے اثرات مختلف منفی سماجی واقعات کی صورت ابھرتے اور تیزی سے بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان ہی میں سے انتہائی تشویشناک اور توجہ کے قابل واقعات کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ تر خاندان میں قریبی رشتہ داروں اور اساتذہ وغیرہ کی طرف سے رونما ہو رہے ہیں۔ سماجی حقارت، جگ ہنسائی، قانونی پیچیدگیوں میں الجھنے سے بچنے اور خاندان کی نام نہاد عزت کو بچانے کے لئے اس طرح کے زیادہ تر واقعات تو کبھی رپورٹ ہی نہیں کروائے جاتے۔ تاہم گزشتہ دو سال سے رپورٹ ہونے والے واقعات میں سے کچھ مثالیں یہاں اس لئے دی جانی ضروری ہیں، تاکہ اس خطے میں ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے ان کے پس پردہ اصل محرکات کو جاننے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح ان واقعات کی روک تھام کے لئے کچھ موثر اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

رواں سال ستمبر کے مہینے میں راولاکوٹ کے نواحی گاوں تراڑ میں مدرسے کے قاری نے بچے کے ساتھ مبینہ زیادتی کی۔مدرسے کے قاری کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی،جبکہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کے ورثاء نے یہ موقف اپنایا کہ قاری کی طرف سے بار بار یہ عمل کیا جاتا رہا ہے۔

نومبر 2023 میں راولاکوٹ میں 12 سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقع پیش آیا،راولاکوٹ کی یونین کونسل سنگولہ کی رہائشی خاتون نے ایف آئی آر درج کرواتے ہوئے کہا کہ بیٹی کا والد باقی گھر والوں کی عدم موجودگی میں بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا رہا بچی کا طبعی معائینہ کروایا گیا تو بچی حاملہ تھی۔

اگست 2024 میں کھوئی رٹہ میں نا بالغ بچی کے ساتھ گینگ ریپ کا ایک دل دہلا دینے والا کیس منظر عام پہ آیا۔

جولائی 2023 میں کھوئی رٹہ میں 15 سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا کیس سوشل میڈیا کی زینت بنا۔

جولائی 2023 میں ہی میر پور کی تحصیل ڈڈیال میں 8 سالہ عائشہ کو اپنے سگے چچا کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔تھانہ ڈڈیال میں اس واقع کی ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی۔

مارچ 2023 میں امبور مظفرآباد میں 14 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کے ساتھ حقیقی والد اور بھائی کی طرف سے جنسی زیادتی کی جاتی رہی جس کی وجہ سے بچی حاملہ ہو گئی۔

اپریل 2023 میں باغ کی تحصیل ریڑ بن میں 17 سالہ نوجوان نے اپنی خالہ زاد پانچ سالہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

تیسری دنیا کی نو آبادیات میں غربت اپنی آخری انتہاؤں پر ہے،مایوسی ہے مستقبل غیر محفوظ ہے،بیرون ممالک معاشی ہجرت کے راستے مسدود بھی ہوتے جا رہے ہیں۔سماج میں موجود ایسے تمام تر مسائل بیگانگی کو جنم دے رہے ہیں،اور ایسی صورتحال میں سماج کی کمزور پرتیں،جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اورجنسی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان جنسی تشدد کے واقعات سے بچنے کے لئے بچوں کی جنسیات کے حوالہ سے بنیادی تربیت، ریاستی سطح پر مطلوبہ قانون سازی اور اس کے نفاذ کے لئے موثرپالیسی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اقدامات وقت کی فوری ضرورت ہیں۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس گھٹن زدہ سماج میں ایسے انسانیت سوز واقعات کی روک تھام کے لیے اس نظام کے قائم رہتے ہوئے مستقل حل کیا جا سکتا ہے تو جواب نفی میں ہے۔ جب کوئی سماج معاشی طور پر آگے نہیں بڑھ رہا ہوتا تو پھر سیاست، ثقافت سمیت دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں گراوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ جب کوئی نظام مجموعی طور پر کسی سماج کو آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہتا تواسے فوری وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظام کے ساتھ بدلنے تک وہ سماج گل سڑ کر تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ اسی تعفن کا اظہار آج ہمیں اس سماجی وحشت، جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے، منشیات کے استعمال، گھریلو تشدد اور خودکشیوں کی صورت نظر آتا ہے۔ جس قدر معاشی تنزلی میں اضافہ ہوتا جائے گا،اس قدر نفسانفسی اور وحشت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

اس معاشی گراوٹ، سماجی تنزلی، ثقافتی گھٹن اور تعفن سے مستقل نجات کے لئے اس سماج کی تمام تر برائیوں کی وجوہات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ استحصال پر مبنی اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک حقیقی انسانی سماج کا قیام ہی اس طرح کے مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ آج تک کی معلوم انسانی تاریخ میں جتنا ظلم انسانیت پر ہوا ہے، جتنے پیاروں کی زندگیاں برباد ہوئی ہیں، جتنے لخت جگر ماوں سے بچھڑے ہیں ان کا انتقام اس سرمائے کے نظام کو مٹا کر ہی لیا جا سکتا ہے۔

Saima Batool
+ posts

صائمہ بتول جے کے این ایس ایف کی رہنما ہیں۔