رپورٹ: فاروق سلہریا/تصاویر: خالد محمود
انقلاب! امید! جدوجہد!
ان جذبات سے سرشار گذشتہ روز پندرہ سے بیس ہزار افراد نے دن بھر جاری رہنے والے فیض امن میلے میں شرکت کی۔ میلے کا انعقاد لاہور کے تاریخی باغِ جناح کے اوپن ائیر تھیٹر میں کیا گیا تھا۔
اَسی کی دہائی کے بعد، لوگوں کی شرکت کے حوالے سے یہ شاید سب سے بڑا فیض میلہ تھا۔ یہی نہیں۔ لگ بھگ تیس سالوں کے بعد اس قدر جاندار آرٹ پرفارمنسز بھی دیکھنے کو ملیں۔ گویا یہ میلہ ہر سال شرکت کے حوالے سے ہی بڑا نہیں بن رہا، اس کا معیار بھی بہتر سے بہتر ہو رہا ہے۔
فیض، چے گویرا، عاصمہ جہانگیر اور مشال شہید کے بینرز کے ساتھ جس طرح سے پنڈال کو سجایا گیا تھا، لمحہ بھر کے لئے تو، بقول فیض، لگا ”دو چار ہاتھ لگے اور ناؤ پورم پار لگی“۔ ۔ جیسے انقلاب لاہور کے دروازے پر دستک دے رہا ہو۔ شاید یہ ایسا غلط بھی نہ ہو۔
صرف چند سال پہلے لاہور میں یا دائیں باز و کی جماعتیں سیاسی جلسے کر رہی تھیں یا مذہبی جنونی گروہ لوگوں کو موبلائز کر رہے تھے۔ ان دو سالوں میں یہ چوتھی مرتبہ تھا کہ لاہور کے دل مال روڈ پر لال لال لہرا رہا تھا۔ اور اگر لال لال لہرائے گا تب ہی ہوش ٹھکانے آئے گا۔
میلے کی خاص بات یہ رہی کہ اس پر نوجوانوں کا رنگ غالب تھا۔ آغاز ہی ایک مذاکرے سے ہوا جس میں طلبہ سیاست پر بات ہوئی۔ مذاکرے کے منتظم ڈاکٹر عمار علی جان تھے۔ اویس قرنی، مزمل خان، محسن ابدالی اور دیگر طالب علم رہنماؤں نے جس طرح مدلل گفتگو کی، شاید پاکستان کی پارلیمان سے لے کر ٹاک شوز تک، آج کل کسی بھی پلیٹ فارم پر سننے کو نہیں ملتی مگر اس مذاکرے کی، بہ زبانِ انگریزی، ہائی لائٹ عروج اورنگزیب کی تقریر تھی۔ عروج اورنگزیب کی ایک ویڈیو ایسی وائرل ہوئی کہ اس نے پاکستان کے بائیں بازو کو کچھ دنوں کے لئے مین اسٹریم خبر بنائے رکھا۔
عروج اورنگزیب کا کہنا تھا کہ محض اس ویڈیو کو مت دیکھیں کیونکہ سرمایہ دار میڈیا صرف وہی دکھاتا ہے جو کیمرے کے لینز میں دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو کے پیچھے سالہا سال کی وہ جدوجہد تھی جس کو بائیں بازو کی دو نسلوں نے سخت حالات کے باوجود جاری رکھا۔
مذاکرے کے بعد ایک انقلابی مشاعرہ ہوا جس کی صدارت خالد جاوید جان نے کی۔ مشاعرے کے مہمانِ خصوصی رضی حیدر تھے۔ اس سال کتابوں کی رونمائی کی ایک نئی روایت کی بنیاد بھی ڈالی گئی۔ لندن میں مقیم بائیں بازو کے کارکن تنویر زمان اور لاہور سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے کارکن عرفان ملک کی کتابوں کی رونمائی کی گئی۔
اس تقریب کی مہمانِ خصوصی فیض صاحب کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی تھیں۔ حسبِ روایت فیض صاحب کی دونوں صاحبزادیاں اور فیض صاحب کے نواسے ڈاکٹر علی ہاشمی بھی میلے میں شریک تھے۔ میلے میں شریک ایک اہم شخصیت ناصر زیدی کی تھی۔ وہ نہ صرف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری ہیں بلکہ یہ ان چار بہادر صحافیوں میں سے ہیں جنہیں ضیا آمریت میں کوڑوں کی سزا سنائی گئی اور اسی لاہور شہر میں انہیں کوڑے مارے گئے۔
اس میلے کا اس بار سب سے زیادہ متاثر کن اور مقبول سیشن رقص و تھیٹر والا سیشن رہا۔ اجوکا نے ”بلھا“ کے نام سے بابا بلھے شاہ پر ایک کھیل پیش کیا جبکہ عالمی شہرت یافتہ رقاص نگہت چوہدری اور آمنہ معاذ نے رقص پیش کیا۔ اسی طرح لال ہڑتال نے بھی اپنا کھیل پیش کیا۔ بلھے شاہ پر اجوکا کا کھیل دیکھتے ہوئے ایک بار ہال پر سناٹا چھا گیا۔ کسی دوسرے موقع پر ہزاروں کا مجمع اس خاموشی اور ڈسپلن سے سٹیج کی گئی کسی پرفارمنس کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس خاموشی کو بار بار تالیوں کی گونج توڑتی۔ تالیاں بابا بلھے شاہ کے مکالموں پر بجائی جا رہی تھیں یہ ایک ثبوت تھا کہ ملائیت اور تشدد کے خلاف انقلابی صوفیانہ پیغام کتنا موثر ہے۔
آخری سیشن مست مست اور انقلابی صوفی موسیقی پر مبنی تھا۔ لال بینڈ کے تیمور رحمٰن، عدیل برقی اورترنم ناز سمیت دیگر گلوکاروں نے ہزاروں لوگوں کو جھومنے اور تھرکنے پر مجبور کر دیا۔ ’ہم دیکھیں گے‘ بھی گائی گئی اور دھمال بھی۔
میلے سے رخصت ہوتے وقت میں نے میلے کے روحِ رواں فاروق طارق کو مبارکباد دیتے ہوئے انہیں آئندہ ہفتہ مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ وہ خراب صحت کے باوجود دن رات اس میلے کی تیاری میں لگے رہے۔
فاروق طارق کا جواب تھا: ”آرام کا وقت کہاں، اب جالب میلے کی تیاری کرنی ہے۔ صرف ایک مہینہ تو باقی رہ گیا ہے!“