عمر شاہد
کرونا وائرس کی وبا تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ چین کے صوبہ ووہان سے پھیلنے والی بیماری نے تھوڑے عرصے میں وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں معمولات زندگی سخت متاثر ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں 180,000 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ اس بیماری کی وجہ سے 7,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ بیماری پھیل رہی ہے اور ابھی تک کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں 184 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کیسز میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس وبا نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کو عیاں کر دیا ہے کہ جہاں ایک طرف پیداواری صنعت میں تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی تو وہی پر چین جیسے ملک میں لاک ڈاؤن کی کیفیت کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں ہیں۔ عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست مندی کا رحجان جاری ہے، طلب کی کمی کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی ریکارڈ کی گئی۔
شرح منافع کی ہوس نے سرمایہ داروں کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ و ہ اس بحران میں بھی منافع کمانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں مگن ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے حکمران طبقوں کے لئے تو وبائیں، سیلاب اور زلزلے ہمیشہ رحمت کا باعث بنے ہیں، جہاں بڑی امداد کا سن کر ہی ان کاانسانیت سے ہمدردی کا راگ شروع ہو جاتا ہے وہی پر سرمایہ داروں کو عوام کا خون چوسنے کی کھلی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ماسک، سینیٹائزر اور میڈیکل ٹیسٹوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اور اس خوف کے ماحول کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرنے میں مگن ہیں۔ اس وبا میں بھی خود وزیر اعظم کا اپنا ہسپتال ’شوکت خانم‘ بھی ٹیسٹوں، ادویات اور بیماری سے بچاؤ کے نام پر کئی گنا زیادہ پیسے بٹور رہا ہے۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ محض چند سو روپے میں بکنے والی عام فلو کی ویکسین مارکیٹ سے ناپید ہو چکی ہے اور اب یہ بڑے ڈاکٹروں کے کلینک پر ہی دستیاب ہے۔
دوسری جانب اس وبا سے نبٹنے کے لئے کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو پھر یہاں کی سرمایہ داری اور حکمران طبقے کی خصلت کا واضح اظہار ہو جاتا ہے۔ پہلے تو یہاں کے حکمرانو ں سے عوام کو محض دعا کرنے یا گرمیوں کے انتظار کا مشورہ دیا گیا اس کے بعد وبا کے حقیقی آثار منڈلانے لگے اور ’بیرونی امداد‘ کی کرن دکھائی دی تو فوری طور پر صوبائی حکومتوں سے لے کے وفاقی حکومت تک حرکت میں آئی۔ ٹیسٹنگ کیٹس اور قرنطینہ مراکز تعمیر کئے جانے لگے لیکن مریضوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے پورے ملک میں عوامی اجتماعات پر پابندی سے لے کے سکول کالجز بند کر دیے گئے ہیں۔ فیکٹری، کارخانے اور دیگر شعبوں کے محنت کشوں کو رخصت نہیں دی گئی بلکہ وہ اس کیفیت میں کام کرتے رہے ہیں جس سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محنت کشوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ حکمران بڑے پیمانے پر کرونا سے نبٹنے کے لئے بڑے ’انقلابی‘ اقدامات کرنے کا دعوے کر رہے ہیں لیکن درحقیقت ان کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سکھر کی لیبر کالونی کو کرونا وائرس کے ہسپتال میں تبدیل کر کے سندھ کے عوام پر احسان جتا رہی ہے اور خود کو چین سے زیادہ قابل ثابت کرنے کا ڈھونگ کر رہی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں سرکاری جامعات کے تمام طلبہ کے ہاسٹلز کو خالی کروا کر وہاں پر قرنطینہ سینٹر قائم کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ سرمایہ داروں، زمینداروں، صنعتکاروں، تاجروں اور رئیسوں کے بنگلے، کوٹھیاں، فارم ہاؤس، فیکٹریاں، اسکول، کالج، سرکاری عمارتیں، پرائیوٹ تعمیری پروجیکٹس کو عارضی ہسپتال نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ لاچار و بے بس مزدوروں کی ملکیت تصرف کے لیے موجود ہے۔
المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکومتی ناقص پالیسیوں کی بدولت 2019ء میں 10 کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق کل ملکی آبادی کے 62 فیصد افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ بھوک اور غربت کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد میں بدتریج اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ہر گھنٹے میں بھوک اور قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے 4بچے مر جاتے ہیں اور ہر پانچواں شخص غذائی قلت کا شکار ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بجٹ کا نہایت قلیل حصہ خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے صحت کا شعبہ نہایت زبوں حالی کا شکار ہے جہاں پر عوام کی بڑی تعدادکے لئے علاج معالجہ کی سہولیات موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائدآبادی کا حصہ غیر سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہے۔ ملک میں ہزاروں افراد غربت سے مر رہے ہیں اس کا کوئی چرچا نہیں کیا جاتا کیونکہ غربت سے کوئی امیر نہیں مرتا۔ ان بیماریوں اور وباؤں میں ہمیشہ غریب ہی لقمہ اجل بنتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب دیکھا جائے توملک کے دفاعی اداروں پر یومیہ 1.35 ارب روپے خرچ کئے جا تے ہیں۔ اسی طرح صرف ایئر فورس کا ایک دن کا خرچہ ملک کے سالانہ کل صحت کے بجٹ کے برابر ہے۔ یہاں کے حکمرانو ں کی ترجیحات میں اسلحہ، بارود اور جنگ ہے انسانی زندگیاں نہیں۔ اس بھیانک صورتحال میں ایسی وباؤں کا مقابلہ کرنا ریاست کے بس کی بات نہیں۔ صحت کے شعبے میں بہتری کرنے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں صحت کے شعبے کو نجی سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پہلے ہی سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کے اخراجات نجی ہسپتالوں کے برابر کئے جا رہے ہیں جس سے علاج معالجہ کی سہولیات عوام کی دسترس سے باہر ہو جائیں گی۔ کرونا وائرس کی وبا کے دوران ہی پنجاب اسمبلی نے بدنام زمانہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ریفارمز ایکٹ 2018ء (ایم ٹی آئی) کو منظور کر لیا ہے۔
کرونا وائرس اور دیگر وباؤں کی اصل ذمہ داری سرمایہ دارانہ طبع پیداوارپر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس نظام میں اشیا کی پیداوار کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ موجودہ طبع پیداوار اپنے پیداواری عمل کے دوران بڑے بے رحمی سے ایکولاجیکل سائیکل، ماحول، زمین اور انسانوں کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ جیسے عظیم مفکر کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف سرمایہ میں بیان کیا تھا کہ”سرمایہ دارانہ زراعت میں آنے والی ساری کی ساری ترقی اصل میں فن کی ترقی ہے، یہ نہ صرف مزدور کو لوٹنے کا فن ہے، بلکہ یہ زمین کو بھی لوٹتا ہے؛ ایک خاص عرصے کے دوران زمین کی زرخیزی بڑھانے کے سلسلے میں ہونے والی ساری ترقی، دراصل اُس محدود زرخیزی کی تباہی کی جانب ہی پیش قدمی ہے۔ ایک ملک اپنی ترقی کا آغاز جتنا زیادہ جدید صنعت سے کرے گا، تباہی کی جانب یہ پیش قدمی اُتنی ہی تیز ہو گی“۔
اینگلز نے واضح کیا تھا کہ”ہم فطرت کے ساتھ بھاری قیمت ادا کئے بغیر چھیڑ چھاڑ جاری نہیں رکھ سکتے“۔ فطرت کے ساتھ کئے گئے ہر فعل کی قیمت کسی دوسری شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد تیز تر سرمایہ داری کی ترقی کے باوجود وباؤں اور بیماریوں کے وقوع پذیر ہونے کی شرح میں کمی نہیں آئی بلکہ پچھلے عشرے میں دیکھاجائے تو ان میں مزید اضافہ آیا ہے۔ آزاد منڈی کی معیشت میں اس بیماری نے ایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے اور ابھی تک اس پر قابو پایا جانا ناممکن نظر آرہا ہے۔ ایک ملک کے بعد دوسرے میں یہ وبا پھیل رہی ہے، اصل مسئلہ پھر اس طبع طرز کا ہے جس میں سکت نہیں ہے کہ انسانو ں کے لئے بیماری اور آفت سے محفوط کرہ ارض فراہم کر سکے۔ اس کے لئے ناگزیر طور پر انارکی او ر منافع پر مبنی معیشت کی بجائے دنیا میں منصوبہ بند معیشت قائم کرنا ہو گی جس کے لئے محنت کشوں کو سماج پر قبضہ کرنا ہو گا جو کہ صرف سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل اقدامات فوری طور پر کئے جائیں تاکہ پاکستان میں اس وبا کو کنٹرول اور مستقبل کے لئے ایسی وباؤں کا راستہ مکمل طور پر روک دیا جائے۔
٭ تمام نجی ہسپتالوں، ٹیسٹ لیبارٹریزاور فارما سوٹیکل کمپنیوں کو فوری طور پر نیشنلائز کرتے ہوئے معیاری علاج فراہم کیا جائے۔
٭ کرونا وائرس کے ٹیسٹس اور اس کی روک تھام کے لئے تمام اشیا کی عوام تک مفت رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
٭ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد یعنی ڈاکٹرز، نرسزاور پیرامیڈیکل سٹاف کو حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں نیز ان کے اوقات کار کو کم کر کے روزانہ 6 گھنٹے کیا جائے اور سٹاف کی کمی کے لئے فوری طور پر تمام میڈیکل ڈگری ہولڈز کو روزگار دیا جائے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
٭ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی کو فوری طور پر روکتے ہوئے قرضوں کی ضبطگی کے لئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔
٭ سرمایہ داروں کو دی جانے والی تمام رعایتوں، ٹیکس ریلیفس اور دیگر مراعات کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام فنڈز کو انسانی بہبود کے لئے استعمال کیا جائے۔
٭ پاکستان بھر کے کارخانوں، فیکٹریوں اور نجی شعبے سے وابستہ محنت کشوں کے اوقات کار کو کم کیا جائے اور سماج کے غیر ضروری شعبوں کے محنت کشوں کو تین ہفتے بمعہ تنخواہ اور مراعات کے رخصت دی جائے۔
٭ کام کرنے کی تمام جگہوں میں محنت کشوں کی صحت کو محفوظ بناتے ہوئے اقدامات کئے جائیں۔
٭ شہروں کے مضافات میں واقع عالیشان فارم ہاؤسز، خالی بنگلوں، چھاؤنیوں اور ریسٹ ہاؤسز کو فوری طور پر کرونا وائرس کے لئے قرنطینہ مراکز اور ایسو لیشن وارڈ ز میں تبدیل کیا جائے۔
٭ جون تک تمام تر غیر پیداواری بجٹ پر روک لگاتے ہوئے صحت کے مراکز، ہسپتالوں اور جدید سہولیات کے لئے برو ئے کار لایا جائے۔
٭ لاک آؤٹ کی صورتحال میں تمام شہریوں کو غذا، خوراک اور دیگر زندگی کی بنیاد ی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
٭ اس وبائی بیماری کی روک تھام کے لئے ’ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ‘ کو فنڈز مہیا کیے جائیں۔
٭ ماحول کو انسانوں کے رہنے کے لئے ساز گار بنانے کے لئے تمام اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
یہ ایسے فوری اقدامات ہیں جو کہ فی الفور ریاست کر سکتی ہے، کیونکہ ان اقدامات کے بغیر کرونا وائرس کے خلاف اقدامات لازمی طور پر قومی بجٹ میں خسارے میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ جس کی قیمت بعد میں دوبارہ محنت کشوں کا ادا کرنا ہو گی لہٰذا حکومت فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کر کے ایسے ٹھوس قدم اٹھائے۔ دوسری جانب محنت کش تنظیموں اور رہنماؤں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسی صورتحال میں افواہوں اور گھبرانے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کشوں کو متحد کرتے ہوئے اس نظام کے خلاف ناگزیر جدوجہد کا آغاز کریں۔ سرمایہ داری ایسے نہج پر آچکی ہے جہاں پر یہ محنت کشوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین رہی ہے۔ واحد راستہ جدوجہد ہی ہے!