پاکستان

کرونا پر مولانا طارق جمیل کو خط

فاروق سلہریا

ڈئیر مولانا، سلام۔

مجھے یہ تو معلوم تھا کہ دین آپ کا کاروبار اور آپ کی سیاست ہے، جس کی بدولت بغیر ٹیکس دئے، آپ ایک شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور اس سیاست کی بدولت وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر آرمی ہاؤس تک، طاقت کے ہر محل کا در آپ پر وَا رہتا ہے۔

یہ آپ کی کامیاب سیاست کا کرشمہ ہے کہ آپ جسے چاہیں قومی کرکٹ ٹیم کا چیف سلیکٹر بنوا دیں اور سیاستدانوں کے بر عکس آپ پر اقربا پروری کا الزام بھی نہیں آتا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ اس کامیاب کاروبار میں آپ کا کوئی اصول نہیں۔ ہم نے تو سنا تھا جنگلوں کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ کرنے والے بھی کسی قاعدے کی پابندی کرتے ہیں۔ انڈر ورلڈ کے ڈان بھی کچھ گھر چھوڑ کر واردات کرتے ہیں مگر آپ نے کرونا وائرس بارے جو ویڈیو بیان جاری کیا، اگر آپ نے پاکستانیوں کے محبوب ممالک‘چین یا سعودی عرب میں دیا ہوتا تو آپ اس وقت کہیں چکی پیس رہے ہوتے۔ 

مجھے معلوم ہے کرونا وائرس نے ہر قسم کی توہم پرستی کو بے نقاب کر دیاہے۔ جب سعودی حکمرانوں نے خانہ کعبہ بند کر دیا اور اس مقدس جگہ کو آب ِزم زم سے غسل دینے کی بجائے سائنسی انداز میں اس کی صفائی کرائی تو عجوہ کھجور کی مدد سے ہارٹ اٹیک کا علاج کرنے والوں اور آب ِ زم زم سے کینسر کا خاتمہ کرنے والے مبلغین کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ آپ کا تلملانا اور پینک (Panic) ہونابالکل بجا تھا۔

آپ ہی نہیں، آپ کے پڑوسی ملک ہندوستان میں مہاسبھا والے بھی گاؤ موت پینے کے لئے جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بھی ایک پادری نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ٹیلی وژن پر بیٹھ کر دعا کریں گے، اپنا ہاتھ اسکرین پر رکھیں گے اور جو اِن کے ساتھ ٹی وی پر ہاتھ ملائے گا، اسے کرونا وائرس نہیں لگے گا۔

آپ کا ویڈیو پیغام موصول ہونے سے پہلے مجھے کسی فوجی افسر کا ایک پیغام واٹس ایپ پر ملا جس میں بتایا گیا تھا کہ سورۃ اخلاص پڑھنے سے کرونا وائرس نہیں ہوگا۔

مولانا! آپ خود، امریکہ کا پادری، مہاسبھا کے نیتا، واٹس اپ پر پیغام بھیجنے والے فوجی بھائی۔ ۔ ۔ ۔ آپ سب اپنے اپنے معاشرے کی ان پرتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کو بہترین علاج کی سہولت میسر ہے۔ آپ کو بدقسمتی سے کرونا وائرس نے چھو لیا تو آپ نواز شریف کی طرح لندن سے بھی علاج کروا آئیں گے۔ ہمارے فوجی بھائی جتنے دن چاہیں کسی سی ایم ایچ کے قرنطینہ میں پڑے رہیں۔ امریکی پادری کے پاس بہترین ہیلتھ انشورنس موجود ہو گی۔ مہاسبھا کے نیتا کو بھی دلی کے بہترین ہسپتال میں داخل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

مصیبت صرف آپ سب کی طبقاتی منافقت نہیں ہے۔ مسئلہ آپ کی منافقانہ سیاست بھی ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ اس وقت ہندوستان، پاکستان اور امریکہ میں ایسے رائٹ ونگ عوام دشمن حکمرانوں کی حکومتیں ہیں جن کا مقصد سرمایہ داروں کے منافع میں بے پناہ اضافہ ہے۔ اس لئے ملکوں کو لاک ڈاؤن کرنے کی بجائے عوام کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ ان سارے ممالک میں مذہب کا سیاست اور سماج میں گہرا عمل دخل ہے۔ اس لئے آپ جیسے دھرم وادی ہر جگہ حکمرانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ حکمرانوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ لوگوں کی زندگیاں بچائیں، آپ لوگوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ اپنی جانیں دے دو مگر سرمایہ داروں کے منافع میں کمی نہیں آنی چاہئے۔ اگر انسان تبلیغی اجتماع میں جا سکتا ہے تو فیکٹری یا دفتر جانے میں کیا حرج ہے!

آپ کا یہ کہنا کہ  چھوت چھات سے کرونا نہیں پھیلتا تو یہ بتائیے آپ نے تین چار دن پہلے جب عمران خان سے ملاقات کی تو ہاتھ کیوں نہیں ملایا؟ اگر آپ کی بات درست ہے تو کرونا کے حوالے سے چین کی کامیابیوں بارے آپ کی کیا وضاحت ہے؟ آپ تو ایم بی بی ایس ہیں۔ آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی ٹیلی سکوپ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے کہ کرونا چھوت چھات سے پھیلتا ہے یا نہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں آپ نے یہ بیان لاعلمی کو وجہ سے نہیں دیا۔ آپ نے صریحاًدروغ گوئی فرمائی ہے۔

 آپ کے بارے میں افواہ تھی کہ آپ اپنے دل کا علاج کروانے کینیڈا گئے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ افواہ ہو مگر یہ خبر تو پاکستانی میڈیا نے دی تھی کہ آپ نے دل میں درد محسوس کیا تو آپ لاہور کے ایک نجی ہسپتال تشریف لے گئے تھے۔ حضور آپ سرکاری ہسپتال بھی تو جا سکتے تھے۔ آپ نے نجی ہسپتال کا رخ کیوں کیا؟ جواب آپ کو بھی معلوم ہے۔

آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ جاپان اور سویڈن جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اوسط عمر اسی سال سے تجاوز کر چکی ہے۔ افغانستان میں اوسط عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ ہے۔ پیشہ ور ڈاکٹر ہونے کے ناطے وجہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔

ویسے اگر چھوت چھات سے فرق نہیں پڑتا تو آپ نے ابھی تک سعودی عرب کے حکمرانوں کو اس عذابِ قبر سے خبردار کیوں نہیں کیا جس سے آپ ہم جیسے سیدھے سادے مزدوروں کسانوں کو دن رات ڈراتے رہتے ہیں؟ کسی دن ہمت کیجئے شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں بھی ایک مذمتی ویڈیو جاری کیجئے۔

اور ہاں اگر اللہ کی ذات پر آپ کو اتنا بھروسہ ہے تو آپ دن رات ویڈیو کیمروں کے سامنے کیوں بیٹھے رہتے ہیں؟ اسلام سمیت دنیا کے اکثر بڑے مذاہب جس دور میں پھیلے، تب تو لاؤڈ اسپیکر بھی نہیں تھا۔ آپ اپنے گاؤں کے حجرے میں تشریف لے جائیں۔ اپنا پیغام دیتے رہیں، اگر اللہ نے چاہا تو آپ کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائے گا۔ اپنے پیارے پیارے تبلیغی بھائیوں کو بھی کہہ دیجئے کہ جہاز، ریل اور بس کا استعمال ختم کر دیں۔

مجھے یقین ہے آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ دین آپ کا کاروبار ہے۔ آپ کا کاروبار آپ کی سیاست ہے۔ دونوں پاکستان کے حکمران طبقے کی آشیر باد سے خوب پھل پھول رہے ہیں۔ آپ کو حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ دونوں ٹیکنالوجی کی مدد سے، عوام کو جاہل رکھ کر، استحصال اور منافع کا نظام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کے منہ سے میں نے کبھی سرمایہ داروں کے خلاف یا مزدوروں کے حق میں کوئی ویڈیو اور آڈیو بیان جاری ہوتے نہیں دیکھا۔ آپ ہی کیا، آج تک کبھی کسی مذہبی جماعت یا مولوی نے یہ کہہ کر چندہ لینے سے انکار نہیں کیا کہ چندے کے پیسے استحصال، ناجائز کمائی یادھونس دھاندلی سے بنائے گئے ہیں۔

آج تک کبھی میں نے آپ کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ جس کے گھر میں چائلڈ لیبر ہو گی، اسے تبلیغی جماعت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ آج تک کبھی آپ نے یہ بیان جاری نہیں کیا کہ جس فیکٹری یا کوٹھی میں ملازموں کو کم از کم بنیادی تنخواہ نہیں ملتی، وہ تبلیغی جماعت کا حصہ نہیں بن سکتے۔

آپ تو طالبان کی دہشت گردی کی مذمت نہیں کر سکے تھے یمن پر سعودی عرب کی جارحیت پر آپ سے مذمتی بیان کی توقع کا مطلب ہو گا کہ آپ کے حج ٹرپ (Trip) ختم ہو جائیں گے اس لئے میری یہ درخواست ہر گز بھی نہیں ہے کہ آپ یمن پر سعودی مظالم پر بھی ایک بیان جاری کریں۔

صرف یہ پوچھنا تھا کہ یمن میں جو بچے بھوک، بیماری اور سعودی بمباری سے مر رہے ہیں کیا ان کی موت اور بیماری کی ذمہ داری بھی آپ اللہ پر ڈال دیں گے یا اس کا الزام ولی عہد محمد بن سلمان کو ٹھرایا جا سکتا ہے۔

ولسلام۔

فاروق سلہریا

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔