لاہور (جدوجہد رپورٹ) کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ملک کے نظام صحت کو مرکزی بحث بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین یہ نقطہ اٹھا رہے ہیں کہ ملک میں وینٹی لیٹرز کی نسبت ٹینکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ شائد یہ صورتحال بہت سے دیگر ممالک میں بھی ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ دیکھا جائے، مجموعی طور پر ملک میں صحتِ عامہ کا نظام کتنا مضبوط یا کمزور ہے۔
ورلڈ بنک کے مطابق جو اعداد و شمار دئے گئے ہیں اس کے مطابق پاکستان کا نظام ِ صحت دنیا کے کمزور ترین صحت کے نظاموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر 1000 افراد کے لئے 0.6 ہاسپیٹل بیڈ ہیں۔ پڑوسی ملک افغانستان جہاں تقریباً چالیس سال سے جنگ جاری ہے، وہاں یہ شرح 0.5 ہے۔ جاپان میں یہ شرح 13، جرمنی میں 8 جبکہ کیوبا میں 5.5 ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ممالک جو کبھی ’کمیونسٹ بلاک‘ کا حصہ تھے وہاں یہ شرح مغربی یورپ سے بھی کافی بہتر ہے۔ شمالی کوریا کی مثال ہی لے لیں، وہاں یہ شرح 13 ہے۔ جنوبی کوریا میں یہ شرح 11 ہے۔
اسی طرح اگر میسر ڈاکٹروں کا تناسب دیکھا جائے تو ورلڈ بنک کے مطابق ہر ایک ہزار افراد کے لئے پاکستان میں ایک ڈاکٹر ہے۔ اگر فی ہزار کے لئے میسر پیرامیڈیکل اور نرسنگ سٹاف کی بات کی جائے تو پاکستان میں فی ہزار شہریوں کے لئے 0.5 نرسنگ اور پیرامیڈیکل سٹاف ہے۔