قیصرعباس
آج دنیابھر میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے تشددکا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش دہ امر یہ ہے کہ ان جرائم میں شامل مجرموں اور قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ملتی جس سے اس قسم کے واقعات کو مزید شہہ ملتی ہے۔
ذرائع ابلاغ پر تشدد کے ان بین الاقوامی رجحانات پر ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں عالمی سطح پر 318صحافی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 86 فیصدقاتلوں کو سزا نہیں ملی۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(CPJ)نے 29 اکتوبرکو شائع کی گئی نئی رپورٹ (Impunity Index) میں ان رجحانات کے اعدادوشمار شائع کیے ہیں جن میں پاکستان سمیت ان 13 ملکوں کے نا م شامل ہیں جہاں ان تشو یش ناک رجحانات کو فروغ دیاجاتاہے۔ اعدادوشمار کے مطابق یہ ممالک 2008ء سے اس انڈیکس کا غیر مسلسل طور پر حصہ رہے ہیں لیکن 7 ممالک اس میں مستقل طورپر شامل رہے ہیں اور مجموعی طورپر پوری دنیا میں اس نوعیت کے چار تہائی جرائم یہیں ہوتے آئے ہیں۔
ان 13ممالک میں جہاں میڈیا کارکنوں پر تشدد کی شنوائی نہیں ہوتی‘صومالیہ، شام، عراق، جنوبی سوڈان، فلپائن، افغانستان، میکسیکو، پاکستان، برازیل، بنگلہ دیش، روس، نائیجیریا ا ور انڈیا شامل ہیں۔
اس فہرست میں سب سے زیادہ جرائم (25) صومالیہ میں ہوئے اس کے علاوہ شام میں 22، فلپائن میں 41، افغانستان میں 11 اور میکسیکو میں 30واقعات ہوئے جن میں کسی کو سزانہیں ہوئی۔ رپورٹ ستمبر 2009ء سے اگست 2019ء کے دوران ان ملکوں کے اعدادو شمار کا احاطہ کرتی ہے جہاں صحافیوں کے قتل کے 5سے زیادہ واقعات ہوئے ہوں اور ان کے مجرموں کو سزا نہ دی گئی ہو۔
اس نئی رپورٹ کے مطابق ان رجحانات کا اثر اب صرف مشرقی ممالک تک محدود نہیں بلکہ یورپی ممالک تک بھی پہنچ گیا ہے۔ 2017ء میں مالٹا کے ایک بلاگر کو ہلاک کیا گیا اور 2018ء میں سلواکیا کے ایک صحافی کو قتل کیاگیااور ان کے قاتلوں کو اب تک سزا نہیں ملی۔
اگرچہ سلواکیا میں قتل کے چار ملزموں پر فرد جرم عائد تو کیاگیا لیکن انہیں بری کردیا گیا۔ گو اس انڈیکس میں افریقہ اور مشرقِ وسطی کے علاوہ کچھ اور ممالک بھی سرِ فہرست ہیں لیکن جنوبی ایشا میں بھی صورت حال کچھ کم خطرناک نہیں۔
انڈیکس میں جنوبی ایشیا کے چارممالک شامل ہیں جن میں پاکستان میں 16 جرائم، افغانستان میں 11، انڈیا میں 17 اور بنگلہ دیش میں 7 جرائم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں کے مقابلے میں پاکستان اور افغانستان میں صورت حال میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن انڈیا اور بنگلہ دیش میں بہتری نہیں دیکھی گئی۔
مبصرین کے مطابق عالمی پیمانے پر صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے مجرموں کو چھوٹ دینے کے واقعات نہ صر ف جمہوری روایات کے لیے بلکہ لوگوں کے انسانی حقوق کی حفاطت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہیں!
پاکستانی کالم نگار اور سماجی کارکن ماروی سرمد جوآج کل واشنگٹن ڈی سی میں ایک تھنک ٹینک میں فیلوشپ کررہی ہیں، نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ جدوجہدکو بتایاکہ ”جنوبی ایشیا کے بیشتر ملکوں میں ریاستیں اپنے شہریوں کی حفاظت کی بجائے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان پر کیے گئے تشدد کونہ صرف قبول کرتی ہیں بلکہ اکثر خود بھی اس کھیل میں شامل ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس مغربی ممالک اپنے شہریوں پر کئے گئے تشدد کو خود ریاست پر حملہ تصور کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت ان علاقوں کے دوسرے ملکوں میں یہ رجحانات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔“
پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے تشدد اور ریاست کی بے حسی کے بارے میں ماروی کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں اس رجحان کا سبب فرسودہ عدالتی نظام، بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور حکومتی ادارے ہیں جو مجرموں کو یا تو تحفظ دیتے ہیں یا وہ عدالتوں سے قانونی موشگافیوں کی بنیاد پر بری کردئے جاتے ہیں۔ آج ہمارے صحافی نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ مذہبی شدت پسند گروہوں کابھی شکار ہیں جنہیں اکثر ریاستی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔“
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1993ءسےاب تک 73 صحافی ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر اقتصادی پابندیوں اورسرکاری و غیر سرکاری تشدد کے نتیجے میں تقریباً2,000 صحافی ذریعہ معاش سے محروم ہو چکے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔