پاکستان


میڈیا کوریج سیلاب کی ہونی چاہئے، ہو شہباز کی رہی ہے

بلوچستان،سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب کے جنوبی اضلاع، پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے گزشتہ 2 ماہ سے مون سون کی شدید بارشوں، سیلابی صورتحال، کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں انسانوں کیلئے رنج و الم کی داستان بنے ہوئے ہیں۔ شمال سے لیکر جنوب تک ملک کے 103 سے زائد اضلاع یا تو پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، یا پھر شدید سیلابی ریلوں میں سب کچھ بہہ چکا ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقات و انتظامی بیوروکریسی سمیت میڈیا تک سب بے حسی کے ماضی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔

شہباز گل بمقابلہ عابد عزیز: جموں کشمیر میں پی ٹی آئی حکومت کا مخالفین پر تھرڈ ڈگری ٹارچر

احتجاج کے تیسرے روز عابد عزیز کو آزاد پتن کے مقام سے راولپنڈی جاتے ہوئے اپنی گاڑی سے اتار کر گرفتار کیا گیا اور راولاکوٹ کی سٹی چوکی پر منتقل کیا گیا۔ رات بھر 10پولیس اہلکار اسے ننگا کر کے الٹا لٹکا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ تیز دھار آلے سے کٹ لگا کر خون رسنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ ان رستے ہوئے زخموں پر نمک اور لال مرچ پاؤڈر لگایا جاتارہا۔ رات بھر اسکی چیخوں سے پورا علاقہ گونجتا رہا۔ عابد کے بقول ڈنڈے پر لال مرچ پاؤڈر لگایا گیا اور پاخانے والے عضو سے میں وہ ڈانڈا بار بار ڈالا جاتا رہا۔

پاکستان میں یونیورسٹی تعلیم کے 75 سال

میری خواہش ہے کہ پاکستانی پروفیسر ایک اخلاقی کمیونٹی تشکیل دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی طالب علم کو سوائے اس کی تعلیمی کارکردگی کے، کسی اور بنیاد پر نہ تو سزا دی جائے گی نہ کوئی فائدہ۔ جب کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہوتو تسلیم کرو کہ اس سوال کا جواب معلوم نہیں۔ یہ مت ظاہر کرو کہ سب معلوم ہے۔ اس وقت تک کوئی مقالہ شائع مت کرو جب تک کوئی نیا زاویہ نگاہ پیش نہیں کیا جا رہا، اگر کوئی پروفیسر دوست پکڑا جائے تو اس کا ساتھ نہ دو، جب تک اپنی تنخواہ حلال مت کرو، تب تک تنخواہ مت لو۔

ثقافتی گراوٹ کے 45 سال

آج جھوٹ، تہمت، منافقت، یو ٹرن، مذہبی عقائد کا سیاسی استعمال، کردار سے عاری شخصیات، دھوکہ دہی پر فخر و اطمینان جیسے مظاہر ضیائی ثقافت کا بد ترین ورثہ ہیں۔ رائج سیاست ان سیاہ اطوار و کردار کے تابع رہ کر ہی پنپ سکتی ہے۔ انہی کے مابین لڑائی بھی ہے اور ’مفاہمت‘ بھی۔ عمرانی سیاست والا دھڑا ’ضیائی جانشینی‘ کے قریب تر ہے، اسی لئے تمام ظلمت کے اثاثے اس کے ہم نشین ہیں۔

تحریک انصاف اور چاہت فتح علی خان: دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں

یہ دونوں مظاہر مراعات یافتہ لوگوں کی بے ہودگی کا اظہار ہیں مگر دونوں وائرل ہیں۔ پاکستان میں فن موسیقی دم توڑ رہا ہے۔ ایسے ایسے ہیرے مٹی چاٹ رہے ہیں کہ انسان خون کے آنسو پی کر رہ جاتا ہے۔ ادہر لندن میں مقیم چاہت فتح علی خان کی مقبولیت کا واحد راز یہ ہے کہ انہوں نے فن موسیقی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے ساتھ کیا لیکن چونکہ وہ پاکستانی گلوکاروں اور موسیقاروں کی طرح مفلس نہیں، مراعات یافتہ ہیں۔ اس لئے موسیقی کے ساتھ جو مرضی کریں، فرق نہیں پڑتا…بس وائرل ہونا چاہئے۔ یہی حال پاکستان تحریک انصاف کا ہے۔ قیادت ارب پتی ہے۔ سپورٹر یا مغربی ممالک میں رہ رہے ہیں یا پاکستان کی اچھی ہاؤسنگ سوسا ئٹیوں میں۔

اگر معیشت عوام دوست ہوتی تو ڈالر ریٹ اہم نہ ہوتا

جتنی دیر تک ہم معیشت کو لاحق بڑے مرضوں کا علاج کرنے سے کتراتے رہیں گے، تب تک ہماری معیشت کا شمار دنیا کی بدترین معیشتوں میں ہوتا رہے گا اور یہاں دنیا کی تیسری سب سے بڑی افراط زر کی شرح رہے گی۔ جب ہم اپنی معیشت کو بہتر طریقے سے چلانے لگیں گے، شہریوں کے معاشی حقوق پر توجہ دیں گے، انصاف فراہم کریں گے، اُن امیر لوگوں پر ٹیکس لگائیں گے جو ہر وقت ٹیکس بچانے کے چکر میں ہوتے ہیں،ڈالر کی قیمت اہم نہیں رہے گی۔

تحریک جموں کشمیر: موقع پرستوں کا کردار اور انقلابی ذمہ داریاں

مظلوم قومیتوں کے کاسا لیس حکمران طبقے کا تاریخی کردار قومی سوال کو اپنی حصہ داری کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لیے تحریک پنپنا شروع کرتی ہے تو یہ دوست کا روپ دھار کر قومی سوال کو اجاگر کرنا شروع کر دیتا ہے۔

قوم یوتھ کا وینا ملک ڈس آرڈر: اے کیس آف ثمینہ پیرزادہ

قوم یوتھ کی خاصیتوں میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انہیں دوسروں کی کرپشن نظر آتی ہے۔ انہیں ملک میں پھیلی کرپشن کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اپنے ایک لیڈر کے علاوہ باقی سب چور نظر آتے ہیں۔ انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ انسان سارے خود نیک اورپرہیزگار ہو جائیں تو دنیا سے ہر طرح کے مسائل کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ خود بے شک ٹریفک سگنل توڑ کر بھاگنے میں ایک لمحہ دیر نہیں کرینگے، لیکن اگر کوئی دوسرا نظر آجائے تو فوراً یہ اعلان فرمائیں گے کہ قانون کی عملداری ہو تو ملک کے اکثریتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

شہباز گل کے بیان پر گرفتاری نہیں، عدالتی فیصلہ ہونا چاہئے

آمریت کی کوئی شکل بھی سیاسی مضبوطی کی نہیں، کمزوری کی نشانی ہوتی ہے۔ اشتعال انگیز بیانات کو جن کی کوئی مادی بنیاد بھی نہ ہو کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ کتنی کمزور حکومت ہے کہ وہ شہباز گل جیسے وارداتئے کے اشتعال انگیز بیانات سے بھڑک اٹھی ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ایسا ہی کرتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔