سرمایہ داری نے انسانیت کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ماحولیات بلا شبہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی سچ میں ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے تو اسے پھر سوشلزم کی بات کرنا ہو گی۔ سرمایہ داری اور ماحولیات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر کوئی سرمایہ داری کے خاتمے کی بات نہیں کرتا اور ’حقیقی آزادی‘ کے نعرے لگاتا ہے تو وہ منافق ہے،جھوٹا ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
پاکستان
پانی بھی ہمیں ملتا ہے سیلاب کی صورت!
اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب رائج الوقت سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کا یہ بنیادی معاشی اور سیاسی ڈھانچہ ہے جس میں کسی بھی چیز کے پیدا کرنے، تعمیر کرنے اور خریدنے کا مقصد محض سرمایہ کاروں کے منافع جات میں اضافہ اور ایک فی صد حکمرانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہے نہ کہ 99 فی صد انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہے۔
’وہ جو سیلاب کے نقصان کو رد کرتا ہے، کیسا بے رحم قلم کار ہے حد کرتا ہے‘
محنت کش طبقہ گو کہ اس وقت مشکلات کے گرداب میں بری طرح پھنسا ہے لیکن اس کے لاشعور میں ایک نفرت اس حکمران طبقے کے خلاف پل رہی اور یہ نفرت جب اپنا اظہار کرے گی تو محنت کش طبقہ ان حکمرانوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کو ان کے پر آسائش محلات میں سے نکال باہر کرے گا اور ایک نئی تاریخ کا آغاز کرے گا جس میں ذرائع پیداوار محنت کشوں کے اجتماعی تصرف میں ہوں گے جہاں انسان انسان کا دشمن نہ ہو گا وہی حقیقی سماج ہو گا اور وہی حقیقی انسانیت کی معراج ہو گی۔
سندھ: درد مندوں کا ڈوبتا دیس
ہم سمجھتے ہیں کہ سرائیکی وسیب ہو، بلوچستان ہو یا ڈوبتا سندھ ہو، ان ساری جگہوں پر عذابوں کی وجہ یہ خونی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے کرپٹ حواری ہیں جس کا حل فیصلہ کن طبقاتی لڑائی کے سوا کوئی بھی نہیں ہے۔
نواز شریف، بے نظیر کے برعکس عمران خان خاموشی سے گھر کیوں نہیں گئے؟
عمران خان وراثتی سیاست کی بجائے شخصیت پرستی کی سیاست کا نمونہ ہیں۔ بوجہ ان کے تینوں بچوں نے پاکستانی سیاست میں نہیں آنا۔ دوم، عمر کے جس حصے میں وہ ہیں، وہاں مزید انتظار کی گنجائش نہیں۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کی طرح ان کے پاس انتظار کا آپشن موجود نہیں۔ یوں ان کی بغاوت ایک طرح سے بائیولوجیکل ڈسپریشن کا بھی اظہار ہے۔
سیلاب سے مزید 10 اموات، کل 830 ہلاکتیں
پاکستانی شمالی اور جنوبی علاقوں میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 10 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک بچوں اور خواتین سمیت 830 افراد ہلاک اور 1348 زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں، آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں اور نقصانات کا تخمینہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک بہت سے علاقوں تک رسائی ہی نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے اصل صورتحال کی معلومات حاصل کی جا سکے۔ آزاد ذرائع کے مطابق 1 کروڑ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔
جموں کشمیر: حکومت کا جعلی معاہدہ عوام کو گمراہ نہیں کر سکے گا
جموں کشمیر میں پنپتے بغاوت کے طوفان نہ صرف مقامی حکمران اشرافیہ کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنیں گے، بلکہ پورے خطے کو اس نظام کے خلاف بغاوت کی تحریک دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کا نوحہ
پرکشش ماحول اور ثقافت سے پرے اگر ہم وسیب میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار پر اور شہروں کے مضافاتی علاقوں پر نظر دوڑائیں تو آسیب کا سایہ نظر آتا ہے۔
میڈیا کوریج سیلاب کی ہونی چاہئے، ہو شہباز کی رہی ہے
بلوچستان،سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب کے جنوبی اضلاع، پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے گزشتہ 2 ماہ سے مون سون کی شدید بارشوں، سیلابی صورتحال، کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں انسانوں کیلئے رنج و الم کی داستان بنے ہوئے ہیں۔ شمال سے لیکر جنوب تک ملک کے 103 سے زائد اضلاع یا تو پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، یا پھر شدید سیلابی ریلوں میں سب کچھ بہہ چکا ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقات و انتظامی بیوروکریسی سمیت میڈیا تک سب بے حسی کے ماضی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ چکے ہیں۔
شہباز گل بمقابلہ عابد عزیز: جموں کشمیر میں پی ٹی آئی حکومت کا مخالفین پر تھرڈ ڈگری ٹارچر
احتجاج کے تیسرے روز عابد عزیز کو آزاد پتن کے مقام سے راولپنڈی جاتے ہوئے اپنی گاڑی سے اتار کر گرفتار کیا گیا اور راولاکوٹ کی سٹی چوکی پر منتقل کیا گیا۔ رات بھر 10پولیس اہلکار اسے ننگا کر کے الٹا لٹکا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ تیز دھار آلے سے کٹ لگا کر خون رسنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ ان رستے ہوئے زخموں پر نمک اور لال مرچ پاؤڈر لگایا جاتارہا۔ رات بھر اسکی چیخوں سے پورا علاقہ گونجتا رہا۔ عابد کے بقول ڈنڈے پر لال مرچ پاؤڈر لگایا گیا اور پاخانے والے عضو سے میں وہ ڈانڈا بار بار ڈالا جاتا رہا۔