پاکستان


قائد اعظم یونیورسٹی کی زمینوں پر پھر قبضہ

ملک میں لینڈ مافیا نے بڑے بڑے قبضے کئے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی اراضی ہتھیانا کوئی ایسا بڑا قبضہ نہیں۔ بات لیکن یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی ایوان صدر، وزیر اعظم سیکریرٹیریٹ اور سپریم کورٹ سے صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ یونیورسٹی ان عمارتوں سے بالکل سامنے دکھائی دیتی ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ بلا خوف جب سر عام جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف یہی نکلتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مفاد عامہ کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس ملک کا مستقبل بہت تاریک ہے۔

مسلم دنیا کی اپنے نوبل انعام جیتنے والوں سے دشمنی کیوں؟

پاکستان کے لوگوں نے اپنی دونوں نوبل انعام یافتہ شخصیات کو متفقہ طور پر ہیرو کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اگر ڈاکٹر سلام کو ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے مسلسل ریاستی و معاشرتی بے حسی کا سامنا ہے تو ملالہ کا نام سنتے ہی دائیں بازو کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔

ایٹمی ریاست اور کچے کا علاقہ

پاکستان کے صوبہ سندھ میں کچے کے علاقوں کے لوگ اشیائے صرف خریدتے ہوئے بالواسطہ ٹیکس تو ادا کرتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں تعلیم، علاج، روزگار اور انفراسٹرکچر تو درکنار جان و مال کے تحفظ کی سہولت میں میسر نہیں ہے۔ سیلاب سے ٹوٹے پھوٹے مکانات کے دروازوں پر کپڑے کے ساتھ قرآن باندھ رکھا ہے۔

شکار پور: امداد شہروں تک محدود، گوٹھ بیماری، بھوک و لاچاری کے مسکن

’کسانوں اور ہاریوں کو ہونے والے نقصانات کے ازالہ کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔ راشن کی فراہمی یقینی بنائی جائے، بجلی کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں اور دیہاتیوں کو بیماریوں سے بچانے کیلئے مچھر مار سپرے اور طبی سہولیات کی فراہمی کو ترجیح دی جائے، تاکہ مزید جانی و مالی نقصان سے ان دیہاتوں کے باسیوں کو بچایا جا سکے۔‘

پی ٹی آئی: مائنس ون نہیں ہو گا، پوری سلیٹ صاف ہو گی

اگر عمران خان کو سائڈ لائن کیا گیا تو پورا پراجیکٹ ہی ختم ہو جائے گا۔ اصل سوال یہ بنتا ہے کہ کیا تحریک انصاف نامی پراجیکٹ لپیٹ دیا جائے گا یا اسے متبادل کے طور پر زندہ رکھا جائے گا۔ زیادہ امکان ہے کہ پر کاٹ کر، متبادل کے طور پر یہ پراجیکٹ جاری رکھا جائے گا مگر یہ محض ایک امکان ہے۔

الیکشن جنوری میں، اگلی حکومت خان کی؟

پس نوشت: نیرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روم جل رہا تھا، وہ بانسری بجا رہا تھا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اور اس کا پالتو میڈیا عصر حاضر کا نیرو ہے۔ ملک جل تو نہیں رہامگرڈوب ضروررہا ہے، ایوان اقتدار میں بیٹھے نیروایکسٹینشن کی بانسری بجا رہے ہیں۔

جامعہ پونچھ: طلبہ مسائل اور ناقابل مصالحت جدوجہد

آئے روز دیکھا جاتا ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت طلبہ حقوق کے نعرے لگاتے ہوئے اقتدار میں آتی ہے اور اقتدار کی ہوس کی وجہ سے طلبہ کو حقوق دینا ہی بھول جاتی ہے بلکہ ان کو جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقتدار کی سیاست کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے طلبہ حقوق کے نام پر سیاست بھی کرتی ہیں، طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ مگر اقتدار کے اندر آتے ہی وہ ان تمام تر مطالبات اور دعووں کو بھول جاتی ہیں۔ نام نہاد ترقی پسند جماعتیں بھی طلبہ یونین کے الیکشن شیڈول کو جاری کرنے میں ناکام رہی ہیں اور آئندہ بھی طلبہ کی تحریک کے بغیر کوئی جماعت اس طرف جاتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔

پاکستانی سرمایہ داری کا تاریخی بحران

پاکستانی سرمایہ داری تاریخی بحران سے دوچار ہے اور ملک کو سماجی و معاشی طور پر ترقی دینے کے لئے جو دیوہیکل وسائل درکار ہیں وہ سرمایہ داری کے تحت میسر نہیں ہو سکتے۔ مذکورہ بالا اشارئیے ماضی میں بھی کسی بڑے معاشی معجزے کا پیش خیمہ نہیں تھے لیکن وقت کے ساتھ مزید ابتری کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کیفیت میں یہاں کسی معاشرتی و سیاسی استحکام کا قیام بھی محال ہے۔

بلوچستان میں موت کی نئی کھیتیاں!

لسبیلہ اس سیلاب میں بلوچستان کے سب سے زیادہ تباہ ہونے والے ضلعوں میں سے ایک ہے۔ صوبے میں تباہ کاریوں سے نبٹنے والے ادارے ’Provincial Disaster Management Authority (PDMA)‘ کے مطابق یہاں اب تک 27 اموات ہو چکی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی اطلاع ہے کہ یہا ں چھ افراد زخمی ہوئے، 5 ہزار سے 8 ہزار گھروں کو نقصان پہنچاہے، 87 ہزار سے زیادہ مویشی لاپتہ ہیں اور 57 ہزار سے زیادہ ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ حب، بیلہ، اوتھل اور دریجی کے قصبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

کیوں نہ بوسیدہ عمارت کو گرایا جائے؟

بیلہ چنیر کے نوجوانوں کو ایک مرتبہ پھر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کئے لئے پیغام ہے کہ یہ نظام اور اس کا تمام تر انفراسٹرکچر بالکل بیلہ چنیر مڈل سکول کی عمارت کی طرح بوسیدہ ہو چکا ہے۔