پاکستان

جموں کشمیر: حکومت کا جعلی معاہدہ عوام کو گمراہ نہیں کر سکے گا

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ڈیڑھ مہینہ تک چلنے والی عوامی تحریک کی قیادت کے ساتھ حکومتی نمائندگان کا کیا گیا معاہدہ گمراہ کن اور جعلی ثابت ہو چکا ہے۔ نہ ہی حکومت ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی کوششوں سے پیچھے ہٹی ہے، نہ ہی وفاقی حکومت نے آئینی حیثیت کی تبدیلی کیلئے منصوبہ بندی ترک کی ہے اور نہ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور بے جا ٹیکسوں کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کے حوالے سے کئے گئے معاہدے پرعملدرآمد کیا جا سکا ہے۔

وزیر اعظم تنویر الیاس نے بارہا ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے ذریعے سیاحت کے فروغ کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان کے وفاق میں پی ڈی ایم حکومتی اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک اجلاس میں ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا منصوبہ ابھی بھی زیر غور ہے۔

اسی طرح بجلی کے بلات نے شہریوں کی تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ عدالت العالیہ کے حکم امتناعی کے مطابق فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 7 روپے اور ساڑھے 9 روپے فی یونٹ کے حساب سے دو ماہ کا ٹیکس تاحکم عدالت موخر کیا گیا ہے۔ تاہم بجلی بلات میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے برابر رقوم جمع کرنے کیلئے دیگر ٹیکسوں میں 70 سے 140 فیصد تک کا اضافہ کر کے بھاری بلات صارفین کو ارسال کر دیئے گئے ہیں۔

محکمہ برقیات کے اندرونی ذرائع کے مطابق قوی امکان یہی ہے کہ عدالت محکمہ کے حق میں فیصلہ دے گی۔ تاہم اگر عدالت نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خاتمے کا حکم بھی دے دیا تو اس مد میں حاصل ہونے والی رقم کے برابر رقوم دیگر ٹیکسوں اور ٹیرف کی مد میں پہلے ہی وصول کر لی جائے گیں۔ البتہ اگر عدالت نے محکمہ کے حق میں فیصلہ دیا تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی موخر شدہ رقم اضافی صورت میں صارفین کی جیبوں سے نکال لی جائے گی۔

محکمہ برقیات کی طرف سے کی گئی اس دھوکہ دہی کا جائزہ لینے کیلئے یہاں ایک کمرشل ادارے کے دو ماہ کے بلات اور دو ماہ کے ڈومیسٹک بلات کی بات کرتے ہیں، تاکہ صورتحال کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔

رواں ماہ جاری شدہ بلات 22 جون سے 22 جولائی کے درمیان استعمال کی گئی بجلی کے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے تک رہا ہے، عید الاضحی کی تعطیلات کی وجہ سے کچھ روز کاروبار بھی معطل رہا ہے۔

ایک کمرشل مرکز کے گزشتہ دو ماہ کے بلات کا جائزہ لیا جائے تو 22 مئی سے 22 جون تک کے بل میں اس مرکز کو 475 یونٹ کا بل دیا گیا، جس کی 21 روپے 34 پیسے کے حساب سے لاگت 10136 روپے بنتی تھی۔ اس لاگت پر ایف سی ایس، ڈی ایم سی اور کیو ٹی آر سرچارج 1512 روپے73 پیسے عائد کیا گیا تھا۔ جی ایس ٹی 3389 روپے، انکم ٹیکس 1650 روپے جبکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ 3755 روپے عائد کیا گیا تھا۔ یوں اس کاروباری ادارے کو فی یونٹ بجلی کی قیمت 41 روپے سے زائد میں فروخت کی گئی۔ البتہ عدالتی حکم پر ایف پی اے معطل ہو گیا، یوں اس ادارے کو 20452 کی بجائے 16697 روپے بل ادا کرنا پڑا۔

تاہم جو بل 22 جون سے 22 جولائی تک کا رواں ماہ ارسال کیا گیا، جس دوران لوڈ شیڈنگ بھی بہت زیادہ تھی، عید الاضحی کی تعطیلات بھی تھیں، اس کے باوجود 475 یونٹ کی بجائے رواں ماہ 710 یونٹ کا بل جاری کیا گیا ہے۔ ان یونٹوں کا 21 روپے 34 پیسے کے حساب سے کل مجموعہ 15151 روپے بنتا ہے۔ اس پر ایف سی ایس، ڈی ایم سی اور کیو ٹی آر سرچاج 2622 روپے 31 پیسے عائد کیا گیا ہے۔ یوں بل میں 50 فیصد اضافے کے ساتھ سرچارج میں 70 فیصد تک کا اضافہ کر لیا گیا ہے۔

اسی طرح نئے بل میں جی ایس ٹی 6096 عائد کیا گیا ہے، جو گزشتہ بل میں 3389 روپے تھا، یوں بجلی کے استعمال میں 50 فیصد اضافے کے ساتھ (جو از خود جعل سازی سے کیا گیا ہے) جی ایس ٹی میں 90 فیصد سے زائد کا اضافہ کر لیا گیا ہے۔

انکم ٹیکس نئے بل میں 3273 روپے عائد کیا گیا ہے، جو گزشتہ بل میں 1650 روپے تھا، یعنی انکم ٹیکس میں 98 فیصد سے زائد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یوں اس ادارے کا مجموعی بل 27132 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

نئے بل میں موخر شدہ رقم 10783 روپے بھی شامل کی گئی ہے، جو عدالتی فیصلہ محکمہ کے حق میں آنے کی صورت ادا کرنا ہو گی۔ اس طرح اگر عدالتی فیصلہ محکمہ کے حق میں آتا ہے تو اس کمرشل ادارے کو 38 ہزار روپے سے زائد کا بل صرف ایک ماہ میں 15 ہزار کی بجلی استعمال کرنے کی صورت ادا کرنا پڑے گا۔ یوں کمرشل بجلی جو گزشتہ ماہ اسی ادارے کو 41 روپے فی یونٹ میں خریدنا پڑی تھی، وہ رواں ماہ 53 روپے فی یونٹ سے زائد کی ہو جائے گی۔

اسی طرح ڈومیسٹک بل کا جائزہ لیں تو 22 مئی سے 22 جون تک کا بل 103 یونٹ صرف ہوئے، جن کا مجموعی بل 7 روپے 74 پیسے 100 یونٹ اور 10 روپے 6 پیسے 3 یونٹ کے حساب سے 804 روپے بنا، اس پر ایف سی آر، ڈی ایم سی اور کیو ٹی آر سرچارج 204 روپے، جی ایس ٹی 309 روپے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ 814 روپے شامل کر کے مجموعی بل 2141 روپے بنا تھا۔

تاہم اسی گھر کا 22 جون تا 22 جولائی کا رواں بل، جس عرصہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی، 184 یونٹ کا ارسال کیا گیاہے۔ اس بل میں 100 یونٹ 7 روپے 74 پیسے اور 84 یونٹ 10 روپے 6 پیسے فی یونٹ ریٹ پر 1619 روپے کل رقم بنی۔

اس پر ایف سی آر، ڈی ایم سی اور کیو ٹی آر سرچارج 458 روپے 79 پیسے عائد کیا گیا، جس میں 110 فیصد سے زائد کا اضافہ ہے، اسی طرح جی ایس ٹی 662 روپے عائد کیا گیا، جس میں 130 فیصد کا اضافہ ہے، ایف پی اے 1935 روپے عائد کیا گیا ہے، جس میں گزشتہ 814 کی نسبت 140 فیصد اضافہ ہے۔ تاہم ایف پی اے کو عدالتی حکم تک موخر کرتے ہوئے، رواں ماہ کا قابل ادائیگی بل 2749 روپے ارسال کیا گیا ہے، جو گزشتہ ماہ ایف پی اے سمیت 2141 روپے تھا۔ البتہ ایف پی اے اگر شامل ہو گیا تو مجموعی طور پر 184 یونٹ کا ڈومیسٹک بل 4570 روپے ادا کرنا پڑے گا۔ یوں ڈومیسٹک بجلی فی یونٹ نرخ 24 روپے تک پہنچ جائیں گے۔

درج بالا کمال مہارت سے محکمہ برقیات نے عدالتی فیصلہ کا انتظار کرنے سے پہلے ہی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سمیت ریکوری کا ٹارگٹ پورا کرنے کا انتظام پہلے سے کر دیا ہے۔ تاہم مظاہرین کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا تھا کہ بجلی کی قیمتیں جون کے نرخوں تک منجمد رکھی جائیں گی۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ختم کی جائے گی اور وفاق کی جانب سے عائد ٹیکسوں سے متعلق کمیٹی قائم کی جائے گی۔

یہاں یہ یادرہے کہ معاہدہ تحریر کرتے وقت بھی عوامی نمائندگان کے ساتھ جعل سازی کی گئی۔ محکمہ برقیات کے ڈائریکٹر تیمور ادریس نے دو ماہ قبل تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ’جدوجہد‘ کو یہ معلومات فراہم کی تھی کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم مقامی حکومت نے وفاقی محکمہ واٹر اینڈ پاور اتھارٹی (واپڈا) کے ساتھ یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ واپڈا سے مقامی حکومت کو 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جائے گی، جو مقامی حکومت نیپرا کے ٹیرف (جو کراچی کے علاوہ پورے پاکستان میں ٹیرف استعمال ہوتا ہے) کے مطابق صارفین کو فروخت کرنے کی پابند ہو گی۔

تاہم انکا یہ کہنا تھا کہ مقامی حکومت واپڈا کو صرف 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ ادا کرنے کی پابند ہے، ٹیرف کے تحت جمع ہونے والی دیگر رقم مقامی حکومت کے بجٹ میں استعمال ہوتی ہے۔ اس طرح مقامی حکومت کو سالانہ 5 ارب روپے کی بجلی خریدنا پڑتی ہے، جسے وہ 29 ارب میں مقامی صارفین کو فروخت کر کے بھاری منافع کماتی ہے۔ واپڈا کو ادا کئے گئے 5 ارب روپے میں سے بھی 70 کروڑ روپے منگلا ڈیم کے واٹر یوزیج چارجز کی مد میں مقامی حکومت کو ادا کئے جاتے ہیں۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم اس 29 ارب کے ریونیو سے الگ ہے۔

حکومت نے جس کمال مہارت سے تحریک کو پسپا کرنے اور دھوکہ دہی کا راستہ اپنایا ہے، اس میں کامیابی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ وقتی طور پر تحریک کی پسپائی تو نظر آرہی ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ طاقت اور جراتمندی سے دوبارہ ابھرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیاں جو اس تحریک کی اصل روح رواں تھیں، انہوں نے احتجاج کا سلسلہ ابھی تک ترک نہیں کیا ہے۔

تحریک میں جہاں اس خطے کے لوگوں کو آئین سازی اور حکومت سازی کے مکمل اختیارات دینے کے مطالبات کو شامل کیا جا رہا ہے۔ وہیں ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ہر منصوبے کا راستہ روکتے ہوئے مقامی آبادیوں کے اشتراک سے سیاحتی انڈسٹری کو عوام دوست بنیادوں پر استوار کرنے کے مطالبات کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ دریائے جہلم پر بننے والے پتن شیر خان اور ہولاڑ ڈیم کی مکمل ملکیت کے حصول کا مطالبہ بھی اس تحریک کے مطالبات کا حصہ بن گیا ہے۔

مقامی گرڈ اسٹیشن کے قیام اور ضرورت کی بجلی مقامی گرڈ میں رکھنے کے بعد فاضل بجلی نیشنل گرڈ میں ارسال کرنے، واپڈا کے ساتھ بجلی کے ٹیرف سے متعلق کیا گیا معاہدہ منسوخ کرتے ہوئے عوامی نمائندوں کی مشاورت سے ٹیکس فری ٹیرف ترتیب دینے کا مطالبہ بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ آٹا کی قیمتیں گلگت بلتستان میں متعین قیمتوں کے برابر کرنے، نجی بینکوں کوڈیپازٹس کا 25 فیصد مقامی آبادیوں کو کارپوریٹ قرضوں کی صورت دینے کا پابند کئے جانے کی قانون سازی یا مقامی سرکاری بینک کو فوری شیڈول کرتے ہوئے نجی بینکوں پر مکمل پابندی عائد کئے جانے کے مطالبات بھی اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔

حکمران اشرافیہ نے جس تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے، وہ چھوٹے مطالبات سے بڑے مطالبات اور محدود علاقے سے وسیع تر علاقوں تک پھیلنے کی صلاحیت کی حامل بن چکی ہے۔ تحریک مختلف مراحل میں قیادتوں کاامتحان لیتی ہے، پہلے سے موجود قیادتوں کو دھتکارتی اور نئے تجربے کرتی ہے۔ بار بار کے دھوکوں اور مصالحتوں سے سبق حاصل کیا جاتا ہے۔ عوام اسی تحریک کے دوران حاصل تجربات کی بنیاد پر اپنی قیادتیں خود تراشتے ہیں اور مصلحت کے ہر امکان کو رد کرتے ہوئے فتح کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔

جموں کشمیر میں پنپتے بغاوت کے طوفان نہ صرف مقامی حکمران اشرافیہ کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنیں گے، بلکہ پورے خطے کو اس نظام کے خلاف بغاوت کی تحریک دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔