پاکستان

پانی بھی ہمیں ملتا ہے سیلاب کی صورت!

بدر رفیق

آج پاکستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، گو کہ اس ملک کے بنتے وقت بھی جنوبی ایشیا میں اسی طرح ایک انسانی المیے کا جنم ہوا تھا جس کی سزا آج تک یہاں کا اکثریتی محنت کش طبقہ بھگت رہا ہے۔ گزشتہ روز کوہستان کے علاقہ میں 5 بھائی گھنٹوں 23 مارچ کو دکھائے جانے والے درجنوں ہیلی کاپٹرز (جنہیں وہ اپنا اثاثہ سمجھتے رہے) میں سے 1 کا انتظار کرتے محنت کشوں کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی کی صرف ایک تصویر اس سماج کو دکھا کر چلے گئے۔ ایسی بے بسی اور بے حسی کی ان گنت داستانیں آج کے اس بحران زدہ سماج میں منفی سچائی کے طور پر موجود ہیں۔ یوں تو کارپورٹ میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر انتہائی بے ہودہ، فضول اور گھٹیا قسم کی حکمران طبقے کے دھڑوں کی نام نہاد لڑائی ہی پاکستان کے سب سے بڑے مسئلہ کے طور پر دیکھائی جاتی رہی جسے ہفتوں بعد سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر، ویڈیوز اور خبروں کی وجہ سے اب الیکٹرانک میڈیا پر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ امداد کی اپیل کے ساتھ دکھایا جانے لگا ہے۔ مگر دوسری طرف کافی ہفتوں سے ہمیں آدھا پاکستان پانی میں تیرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انہیں متاثرہ علاقوں میں سے 90 فیصد سے زائد علاقوں میں محنت کشوں کو آج تک پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کیا جا سکا۔

ماحولیاتی بحران کے سلسلہ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر ریکارڈ بارشوں، کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سمیت دیگر اثرات بڑے پیمانے پر محنت کشوں کا سب کچھ اجاڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سیلابی ریلے بستیوں کی بستیاں، شہروں کے شہر، گھر، خاندان، مال مویشی اور فصلیں اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا لے جا رہے ہیں۔ اب تک ہزاروں انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں، کروڑوں بے گھر انسان پانی میں سر ننگے،بھوکے، پیاسے، سخت بارش میں زندگی اور موت کی کشمکش میں جھول رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ رہے ہیں، کروڑوں ایکڑ فصلیں مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی مختلف تصاویر اور ویڈیوز دل دھلا دینے والی ہیں۔ مگر دوسری طرف حکمرانوں کے سیاسی نمائندگان اور کالے دھن پر پلنے والا نام نہاد میڈیا ہمیں بے حسی کی انتہاؤں کو چھوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ریاست اور اس کی انتظامی کمیٹیاں (وفاقی و صوبائی حکومتیں) ہمیں کروڑوں محنت کشوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت میں کہیں بھی نظر نہیں آ رہیں۔

ابھی تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں 250 سے زائد اموات ہو چکی ہیں، جن میں 150 کے قریب بچے اور 40 سے زائد خواتین شامل ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی، بھوکے پیاسے، بے گھر اور انتہائی بیمار کر دینے والے ماحول میں سسک رہے ہیں۔ سندھ کے 17 اضلاع میں 20 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہو چکی ہے۔ جن میں تقریباً 2200 کلومیٹر شاہراہیں، 50 کے قریب پُل، 4 لاکھ کے قریب گھر اور دیگر عمارتیں اور تقریباً 5 ہزار کے لگ بھگ مویشی بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ نوابشاہ ائیر پورٹ کو سیل کر دیا گیا ہے جبکہ حیدرآباد ڈویژن کے 9 اضلاع میں آمدہ بلدیاتی انتخابات کو بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں بھی اب تک 250 سے زائد اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ 34 اضلاع اس وقت زیر آب آچکے ہیں، جبکہ 4 لاکھ کے لگ بھگ آبادی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ تقریباً 30 ہزار مکانات، 1 ہزار کلو میٹر طویل شاہراہیں، 20 پُل اور 5 لاکھ سے زائد مویشی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی ہائی وے اور M8ہر طرح کی ٹریفک کے لئے بند ہو چکی ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں فی الوقت ایک ہفتے کی ہنگامی تعطیلات کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

خیبر پختونخواہ میں بھی تقریباً 100 بچوں سمیت 200 سے زائد اموات رپورٹ ہو چکی ہیں جبکہ ہزار سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ صوبہ کے 33 اضلاع سیلاب سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں جن میں تقریباً 1 لاکھ کے لگ بھگ آبادی کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ سوات سمیت دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔

جنوبی پنجاب تقریباً سارا ہی زیر آب ہے جبکہ پنجاب کے کل 17 اضلاع سیلاب کی زد میں ہیں۔ 50 کے قریب بچوں سمیت 200 کے لگ بھگ اموات کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں جبکہ ہزاروں لوگ اس وقت تک زخمی اور بیمار ہو چکے ہیں۔ پنجاب کے 50 ہزار کے لگ بھگ مکانات، 50 کلو میٹر سڑکیں اور 10 پُل بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔

اسی طرح ان بارشوں کے دوران پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں بھی سیلاب، کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر اثرات کی وجہ سے اب تک 50 سے زائد اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ 6 اضلاع کے متاثر ہونے سے تقریباً 1 ہزار سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں جبکہ 15 ہزار افراد بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ سب وہ اعداد و شمار ہیں جنہیں سرکاری اور عالمی ادارے رپورٹ کر چکے ہیں حالانکہ صورتحال اس سے کئی گناہ زیادہ گھمبیر تصویر پیش کر رہی ہے اور مزید تباہی و بربادی جاری ہے۔ بارشوں اور سیلاب کے خاتمے کے بعد بھی مختلف طرح کے سنگین مسائل کا سامنا اس ریاست کے محنت کشوں کو کرنا پڑے گا۔ جن میں فصلوں کی تباہی کے باعث خوراک کی قلت کا بحران، معاشی بحران میں اضافہ، بیماریوں کا پھیلاؤ سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

جس طرح ہم نے ماضی میں بھی 2005ء کے زلزلہ سمیت دیگر آفات کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ یہ آفات محنت کشوں کے لئے جہاں اموات، زخموں، بیماریوں، بے گھری سمیت ہر طرح کے دکھ اور تکالیف کو جنم دیتی ہیں وہیں پر حکمران طبقے کے لئے عالمی امداد کے نام پر بے پناہ مال کمانے کا ذریعہ بھی بنتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اس وقت جاری قیامت نے بہت سے نام نہاد رازوں کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ اس وقت آدھے سے زائد پاکستان میں کمزور، ناقص اور پسماندہ انفراسٹرکچر کی قلعی کھل چکی ہے تو دوسری طرف یہ زوال پذیر ریاست متاثرین کو کسی بھی طرح بحالی کی طرف لے جاتے ہوئے سرے سے نظر نہیں آ رہی۔ بلکہ اس کے برعکس شروع میں اس سیلاب کو مین اسٹریم میڈیا پر اور حکمران نمائندگان کی طرف سے ایسے نظر انداز کر دیا گیا جس کی مثال انگلی کے پیچھے سورج چھپانے والی ہے۔ اب جب کہ حکمرانوں اور نام نہاد کارپوریٹ میڈیا کی قلعی دنیا کے سامنے کھل چکی تو ان کی بے حسی بھی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ فوٹو سیشنز اور عالمی امداد کی اپیلوں کا آغاز ہو چکا ہے جس سے یہ نام نہاد حکمران اشرافیہ اور بیوروکریسی ہمیشہ کی طرح جعلی ہمدردی کے نام پر مال کمانے کی کوشش میں مگن نظر آ رہی ہے۔

حالانکہ یہ کام ریاست کا ہے مگر نام نہاد ریاست کی ناکامی کے باعث محنت کشوں کو طبقاتی یکجہتی کے تحت ہمیشہ کی طرح اپنے طبقہ کے لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس وقت ملک بھر میں خشک رہائش گاہوں، خیمہ بستیوں، کپڑوں، بستروں، خوراک اور دواؤں کی بر وقت فراہمی نہ ہونے کی صورت انسانی جانوں کا مزید بڑے پیمانے پر ضیاع اور بیماریوں کے خدشات بہت بڑھ جائیں گے۔

حکمران جب تک عالمی امداد اکٹھی کر کے اپنا مال بنانے کے بعد محنت کشوں تک کچھ امداد لے کر پہنچتے تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ لہٰذا یہ امور بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کو انقلابی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے خود ہی سر انجام دینے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور محنت کشوں کو ملک بھر میں احتجاجی مہم کا آغاز بھی کرنا ہو گا جس کی بنیاد پر نا صر ف حکمرانوں پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ہنگامی اقدامات میں تیزی لائی جا سکتی ہے بلکہ خود طبقاتی یکجہتی کو منظم کرتے ہوئے ملک بھر کے کروڑوں نوجوانوں اور محنت کشوں تک ان مشترکہ مسائل کے حقائق کو لے جانا ہو گا۔ محنت کشوں کے ان مشترکہ مسائل کا مستقل حل بھی طبقاتی جڑت کی بنیاد پر مشترکہ جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔

آج اس کرۂ ارض پر جتنے وسائل اور ایڈوانس ٹیکنالوجی موجود ہے اتنی تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ مگر دوسری طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کی اکثریت جتنی محرومیوں، مسائل اور جس بے بسی کا شکار نظر آتے ہیں اس پیمانے کی بے بسی بھی شائد ہی انسان نے اپنی تاریخ میں دیکھی ہو گی۔

جب تمام وسائل موجود ہیں تو آخر کیوں اکثریتی انسان بے بس نظر آتے ہیں؟ 23 مارچ کو درجنوں ہیلی کاپٹرز کی اڑان اور دیگر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے آلات کی نمائش آخر کیوں کسی حقیقی ایمرجنسی میں بر وقت استعمال نہیں ہو سکتی؟ انسانیت کے قتل کے آلات پر کھربوں ڈالرز کے اخراجات اور انسانی جانوں کو بچانے کے لئے چند لیٹر فیول کا استعمال کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ آخر یہ سیلاب اور قدرتی آفات حکمرانوں کے محلات اور پوش علاقوں کو کیوں برباد نہیں کرتے؟ عمران خان کی بہن حلیمہ باجی کو سیر و تفریح کے دوران ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کیا جا سکتا ہے، شہباز شریف سمیت دیگر وزرا حکومت فضائی جائزہ کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کر سکتے ہیں، جنرل قبرستان میں دعا کے کے لئے ہیلی کاپٹر پر جا سکتے ہیں، کھیل کے نام پر جوئے کے دوران سٹیڈیم پر ہیلی کاپٹر کئی کئی گھنٹے پرواز کر سکتا ہے، تو کوہستان میں 5 گھنٹے موت کے منہ میں بے بسی سے کھڑے 5 بھائیوں کے لئے ہیلی کاپٹر کیوں مہیا نہیں کیا سکتا؟

اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب رائج الوقت سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کا یہ بنیادی معاشی اور سیاسی ڈھانچہ ہے جس میں کسی بھی چیز کے پیدا کرنے، تعمیر کرنے اور خریدنے کا مقصد محض سرمایہ کاروں کے منافع جات میں اضافہ اور ایک فی صد حکمرانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہے نہ کہ 99 فی صد انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہے۔ تمام مسائل کا خاتمہ اس بازاری نظام کے مکمل خاتمے کے ذریعے یہاں ایک حقیقی انسانی سماج کے قیام سے ہی ممکن ہے جہاں کسی بھی چیز کو پیدا کرنے کا مقصد منافع خوری اور 1 فیصد کے سیاسی مفادات کے تحفط کی بجائے وسیع تر انسانی مفادات اور ضروریات کو بنایا جائے۔ اور یہ نظام صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے منصوبہ بندی کو رائج کرتے ہوئے ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔

Badar Rafiq
+ posts

بدر رفیق کا تعلق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع پونچھ سے ہے۔ وہ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے میگزین ’عزم‘ کے مدیر ہیں۔