جہاں تک بات مستقبل کی ہے تو اگر کچھ مطالبات منظور ہوجاتے ہیں تو پھر مولانا ہدایت الرحمان کی صورت میں ایک ایسا چہرہ مل جائے گا جو عوامی حمایت کے ساتھ نہ بھی منتخب ہو تب بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا اور وہ بلوچ قوم پرستوں کی نسبت زیادہ پسندیدہ بھی ہوگا۔ اس علاقے کا جو سیکولر چہرہ تھا وہ بھی فرقہ واریت اور مذہبی منافرتوں کی نذر ہو سکتا ہے۔ ایک لمبے عرصے سے جو اس علاقے میں فرقہ وارانہ بنیادیں رکھنے کی کوشش مذہبی بنیادوں پر کی جا رہی تھی وہ اب عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے کی جانیوالی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں آسانی سے رکھی جا سکیں گی۔