مزید پڑھیں...

پی ٹی یو ڈی سی کا احتجاج: کشتی حادثہ کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد (پ ر) نیشنل پریس کلب کے سامنے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام یونان میں کشتی حادثہ میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے میں ڈاکٹر فرزانہ باری، یونائیٹڈ سٹاف آرگنائزیشن ریڈیو پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری اعجاز خان، ریلوے لیبر یونین ڈیزل ورکشاپ کے صدر آصف رسول،عوامی ورکرز پارٹی کے بشیر حسین شاہ کے علاوہ JKNSF ، RSF اور PTUDC کے کامریڈز نے شرکت کی۔

پاکستانی تارکین وطن کو کشتی کے ڈیک سے زبردستی نچلے حصے میں لایا گیا: گارڈین

’گارڈین‘ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو اس ٹرالر نما کشتی کے ڈیک سے زبردستی کشتی کے نچلے حصہ میں دھکیل کر دیگر قومیتوں کے تارکین وطن کو کشتی کے ڈیک پر لایا گیا۔ اس اقدام کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کے ڈوبنے کا زیادہ امکان تھا۔

انسانی سمگلنگ روکنے کے اقدامات: کشتی حادثے کے بعد کیا ہوا؟

یوں روزگار فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری سے دستبردار ریاست کے نمائندوں نے روزگار کیلئے جان قربان کرنے والوں کے ورثاء کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ریاست اگر اس طرح کے اقدامات نہیں کرتی تو انگلی ریاست کی طرف بھی اٹھ سکتی ہے۔ احتجاج منظم ہو سکتا ہے اور احتجاج کرنے والے سب سے پہلے یہی سوال کریں گے کہ یہ نوجوان کیوں ایسے زندگی داؤ پر لگانے کیلئے مجبور ہوئے۔ اس لئے ایک منظم انداز میں ریاست نے احتجاج کا راستہ ہی روک دیا ہے۔

ملک چھوڑنے کی جستجو: غریب اگر نہیں رہنا چاہتا، تو حکمران کب رہتے ہیں؟

یہ سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے کہ جو لوگ 20سے25لاکھ روپے خرچ کر کے غیر قانونی طریقوں سے یورپ جا رہے تھے، وہ اس رقم سے یہاں بھی کوئی چھوٹا موٹا کاروبار استوار کر کے دو وقت کی روٹی تو مہیا کر ہی سکتے تھے۔ ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یورپ جانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کے رشتہ دار، کچھ کے بھائی بھی پہلے سے یورپ کے مختلف ملکوں میں موجود تھے۔ انہیں روٹی کا مسئلہ تو نہیں تھا، وہ کیوں بیرون ملک گئے۔

’تارکین وطن کے قاتلوں کو سزا دی جائے‘: یونان میں ہزاروں افراد سراپا احتجاج

جمعرات کو یونان بھر کے شہروں میں ہزاروں افراد نے یورپی یونین کی مائیگریشن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاجی مظاہرین تارکین وطن کو بچانے کیلئے اقدامات نہ کرنے پر یونانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

یونان: تارکین وطن کا جہاز ڈوبنے سے 750 میں سے 104کو زندہ بچایا جا سکا

پناہ گزینوں کیلئے ایک خود منظم ہاٹ لائن کے مطابق کشتی کے لوگوں نے مصیبت میں مبتلا ہونے کی اطلاع دی لیکن یونانی حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے بات بات مدد کی پیشکش کی لیکن تارکین وطن کی جانب سے مدد لینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

بہتر زندگی کیلئے موت کی بازی لگانے پر مجبورانسان

کشتی کے ڈوبنے کی خبر آنے کے بعد مختلف تبصرے ہو رہے ہیں۔ عوامی رد عمل کے بعد پاکستانی حکمران اور سفارتخانے کے ذمہ داران نے پھرتیاں دکھانا شروع کی ہیں۔تاہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاملے کو ایک غیر قانونی اقدام تک محدود کر کے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بات مگر کوئی بھی سوچنے یا کہنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ سماج اتنا گھٹن زدہ،اتنا بوسیدہ اور اتنا پست ہو گیا ہے کہ اس میں انسان کی سانس گھٹ رہی ہے۔ ہر انسان یہاں سے فرار ہونا چاہتا ہے۔ بہتر زندگی کیلئے موت کی بازی لگانے کیلئے تیار ہونے والے نوجوانوں کو خودکشی کے مترادف اس انتہائی اقدام تک جانے کیلئے تحریک دینے والی وجہ اتنی معمولی نہیں ہو سکتی۔

ناؤ بھر لوگ مرے تُجھ سے سنبھالے نہ گئے!

اکیسویں صدی میں ہجرت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا مسئلہ بھی ماحولیات سمیت دیگر کئی بڑے مسائل کی طرح عالمی طور پر واضح، یکساں اور مثبت پالیسی کا متقاضی ہے۔ مہاجرین کا مسئلہ نہ کسی ایک ملک کا ہے اور نا ہی یہ کسی مخصوص بر اعظم کا مسئلہ ہے۔ اس صدی میں بڑھتے ہوئے مسائل میں مہاجرین کا مسئلہ بھی عالمی ہے، جس کو صرف اور صرف ہم آہنگی کے ذریعے ایک عالمی پالیسی کے تحت ہی حل کیا جاسکتا ہے۔