نقطہ نظر

پرومیتھیس، کارل مارکس اور سائنٹفک سوشلزم: ایرک رحیم کی نئی کتاب

قیصر عباس

دیو مالائی داستانوں کے مطابق یونانی دیوتا پرومیتھیس (Prometheus) کو جدت پسندی اور سرکشی کا استعارہ سمجھا جاتاہے لیکن ان ہی خصوصیات کی وجہ سے وہ دوسرے دیوتاؤں کے جور و ستم کا نشانہ بھی رہا۔ شاید یہی وہ پس منظر تھا جس کی بنا پر ایرک رحیم نے مارکس کے نظریاتی سفر پر اپنی نئی کتاب کا عنوان’پرومیتھیس تصور‘ رکھا ہے۔

مارکس کو بھی اپنے انقلابی نظریات کی بناپر اس وقت کے حکمرانوں کے عتاب کا سامنا تھاجس کی وجہ سے انہیں نہ صرف اپنے وطن جرمنی بلکہ فرانس اور بلجیئم سے بھی نکالا گیا اور وہ آخر کار برطانیہ میں زندگی کا آخری دورگزارنے پر مجبور ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔

ایرک رحیم پاکستانی نژاد برطانوی دانشور اور اکیڈیمک اسکالر ہیں جن کی نئی کتاب
 A Promethean Vision: The Formation of Karl Marx’s Worldview حال ہی میں پریکسس پریس (Praxis Press) اور مارکس میموریل لائبریری، سکاٹ لینڈ، برطانیہ کے زیر اہتما م شائع ہوئی ہے۔

کتاب کا جنوبی ایشیائی ایڈیشن بھی عنقریب فولیو بکس (Folio Books) کے زیر اہتمام لاہور سے شائع ہورہاہے۔ ایرک رحیم ان صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے آزادی کے فوراً بعد پاکستان کی ترقی پسند سیاست میں ایک فعال کردار اداکیاتھا۔ وہ ملک کی کمیو نسٹ پارٹی کے اس ہراول دستے میں شامل تھے جو ترقی پسند نظریات کے فروغ میں پیش پیش تھا۔ وہ صحافی کی حیثیت سے کراچی گئے اور بائیں بازو کی تحریک کا حصہ بن گئے۔

پاکستان ٹائمز اور ڈان میں کام کرتے رہے اور سیاسی وابستگی کے جرم میں حسن ناصر اور دوسرے کارکنوں کے ہمراہ گرفتار ہوئے۔ تقریباً ایک سال کی اسیری کے بعد رہا ہوکر لاہور میں پاکستان ٹائمز میں رپورٹنگ کی۔ ایوب خان کا مارشل لا آیا تو ترقی پسندوں پر زندگی تنگ ہوچکی تھی۔

حالات کی سنگینی کے پیش نظر برطانیہ آگئے اور اس ارادے سے اقتصادیات میں اعلیٰ تعلیم شروع کی کہ اس کی تکمیل کے بعد وطن واپس جائیں گے لیکن حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ گلاسکو کی سٹراچکلائیڈ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسرمقرر ہوئے اور ایک عرصے تک تحقیق و تدریس کے بعد آج کل اسی یونیورسٹی میں محقق کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مارکس کے انقلابی شعور کو اب تک کئی تجزیاتی آئینوں سے دیکھا گیا ہے مگر مصنف کے مطابق ان کی کتاب تاریخی مادیت کے نظریے پر روشنی ڈالتی ہے۔ سات ابواب پر مشتمل یہ کتاب مارکس کے نظریاتی ارتقاکا ان کی زندگی کے پس منظر اور اس دورکے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے کی روشنی میں بخوبی احاطہ کرتی ہے۔

پہلا باب جرمنی میں ان کے ابتدائی دور کے ابھرتے ہوئے نظریات کا جائزہ لیتا ہے جس میں ہیگل کے فلسفے کے مارکس پر اولین اثرات کا تجزیہ موجود ہے۔ دوسرا باب پیرس میں ان کے قیام اور نظریاتی ارتقا پر گفتگو ہے جہاں وہ اپنے خیالات کی پختگی کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ تیسرا باب سرمایہ دارانہ نظام پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے اور چوتھے باب میں اقتصادی سیاسیات کی نئی تاویلات کا ذکر کیاگیا ہے۔ پانچویں باب میں برسلز میں قیام اور مارکس کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری دو ابواب میں مادیت کے دو پہلوؤں، نظریاتی فریم ورک اور کمیونزم پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

مارکس شروع میں جرمن فلسفی ہیگل (Hegal) کے دو نظریوں سے خاصے متاثر تھے۔ اول یہ کہ سماج کو انفرادی بنیادوں پر نہیں بلکہ سماجی رشتوں کے تناظر میں پہچاننا ضروری ہے۔ دوئم یہ کہ تاریخ ایک ارتقائی عمل کا نام ہے جس میں انسان مختلف مدارج سے گزرکر ترقی کی منزلیں طے کرتاہے اور یہ ارتقا قدرتی طورپر عمل میں آتاہے لیکن مارکس بعد میں ہیگل سے کئی پہلوؤں پر اختلاف کرتے دکھائی دئے اور یہیں سے انہو ں نے اپنے ایک الگ نظرئے کی بنیاد رکھی۔

مارکس نے 1844ء میں پیرس میں قیام کے دوران سیاسی اقتصادیا ت کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا۔ یہیں ذرائع پیداوار(Mode of Production) میں مزدور کا بنیادی کردار، سرمایہ دار اور مزدور کے مفادات میں ٹکراؤ اور دو سرے اہم تصورات مارکس کی سوچ کا محور بنے جن کی بنیاد پر 1845ء تک مارکس کا نظریہ تاریخی مادیتپوری طرح تشکیل پا چکا تھا۔ مادیت کے پرانے نظرئے کے مطابق انسانی ذہن کسی معروضی قوت سے آگہی حاصل کرتاہے لیکن نئے نظرئے کی رو سے حقیقت یا علم دراصل انسانی عقل کی ہی پیداوار ہے اور اس طرح انسان خود مختار ہے۔ اس تمام نظریاتی تشکیل میں مارکس کا یہ تصور اہم ہے کہ قدرتی وسائل (Original Nature) انسان کی پیداکردہ نیچر(Historical Nature) سے مختلف ہے جو ان تاریخی اور ارتقائی محرکات پر مشتمل ہے جنہیں انسان اپنے وسائل کو استعمال کرکے پیدا کرتا ہے۔ مثلاً زمین ایک بنیادی قدرتی وسیلہ ہے جس کو استعمال کرکے انسان اپنے لئے جو فصل پیدا کرتا ہے وہ اس کی تخلیق کردہ نیچر کا حصہ ہے۔ اس پورے نظریے کا لب لباب یہ ہے کہ آج کی دنیامیں تمام تیکنیکی سہولیات اوررہن سہن کے جدیدطریقے (شاہراہیں، مکانات، کار، ہوائی جہاز وغیرہ) در اصل قدرتی نظام کا حصہ نہیں بلکہ انسان کی اپنی ارتقائی کامیابیوں کا نتیجہ ہیں۔

ان ارتقائی منزلوں میں انسان ایک کلیدی اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اپنی سماجی اور فطری ضروریات پورا کرنے کے لئے ایک پیداواری عمل سے گزرتا ہے اور اپنی پچھلی نسل سے ملنے والی وراثت کوبنیاد بناکر ترقی کے مدارج طے کرتا ہے۔ اس طرح اگرچہ انسان آزاد تو ہے لیکن وہ اپنے ورثے میں ملنے والے ماحول کا قیدی ہے، اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور اسی کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔ مثلاً کسی بھی قبائلی سماج کو عمداً کم عرصے میں مغربی جمہوریت میں تبدیل کر نا ایک غلطی ہے کیونکہ اس معاشرے کوان تاریخی مدارج سے گزارے بغیر کسی نئے نظام میں تبدیل کرنا ممکن نہیں اور اس سے سماجی ردعمل بھی جنم لے سکتاہے۔

لیکن سوال یہ ہے اگر یہ مدارج ہی ترقی کے اٹل فارمولے ہیں اور معاشرے ان ہی دائروں کے قیدی ہیں تو پھر انقلاب کی ذریعے معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی کی امید کس لئے رکھی جائے؟ مصنف ان سوالوں کے جوابات بھی مارکسی نظریات کی نئی تشریحات کے حوالے سے دیتا ہے جن کے مطابق معاشرے نظام کو تبدیل کرنے کے اہل ہیں مگر ہر معاشرہ اپنے اقتصادی اور سیاسی ماحول کے مطابق ہی ارتقائی مراحل طے کرتاہے۔ کتاب کا آخری باب نہ صرف انقلاب کے لئے سازگار ماحول او ر اس سے تبدیلی کے مرحلوں کی تفصیل بیان کرتاہے بلکہ انقلاب کے بعد کے مرحلوں پر بھی سیر حاصل بحث کرتا ہے۔

ایرک رحیم کے مطابق مادیت کا مارکسی تصور کوئی اٹل حقیقت نہیں بلکہ حقیقی محرکات کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اسے تاریخی حقیقتوں کو بہتر سمجھنے کی ایک تھیوری اور ایک تجزیاتی نقطہ نظر سمجھنا چاہیے نہ کہ ایک اٹل حقیقت۔ اس پہلوکی وضاحت خود مارکس نے بھی کئی جگہوں پر کی ہے جن میں ان کی تصنیفات "A Contributin to the Critique of Political Economy” اور ’کیپٹل‘ بھی شامل ہیں۔

مصنف کے خیال میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر سرمایہ دارانہ نظام کا اختتام کمیونزم پرہی ہو۔ ان کے مطابق مارکس نے صرف جاگیردارانہ نظام سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب پیش رفت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ کہنا کہ کمیونزم ہی معاشرتی ارتقا کی آخری منزل ہے مارکس کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مصنف کاخیال یہ بھی ہے کہ مارکس کے تصورات نے سائنٹفک سوشلزم کی بنیاد رکھی ہے جو صرف ایک طبقہ فکرکے لئے ہی نہیں ہے بلکہ مختلف نظریوں کے حامل لوگوں کے لئے بھی ہے جو اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

کتاب کے آخری حصے میں مارکسزم کے بین الاقوامی پہلو پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ مارکس نے اگرچہ ملک کے پیداواری نظام کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے اس کے اندرنی محرکات کا تفصیلی جائزہ لیا لیکن ان کے نزدیک بین الاقوامی اقتصادی تعلقات بھی انتہائی اہم ہیں کیوں کہ ہرمعاشرے میں انقلابی اور سماجی تبدیلیوں کے لئے عالمی محرکات کا ایک اہم کردار ہے، کسی بھی ملک میں کمیو نزم کو عالمی نظام کے اثرات سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔

اسی پس منظر میں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کی سکڑتی ہوئی دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی جس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اسے صرف ترقی یافتہ ملکوں تک محدود رکھنا بہت مشکل ہے۔ اکثر ترقی پذیر ممالک بھی جدید ٹیکنالوجی کی مغربی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ارتقائی عمل کے درمیانی مدارج کو پھلانگ کر ترقی کی رفتار تیز کرنے کی کوشش میں ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک بھی جدید ٹیکنالوجی کے سہارے اب نہ صرف ایٹمی طاقت بن چکے ہیں بلکہ دفاعی شعبوں میں لڑاکا طیاروں سے لے کر ٹینک اور اسلحہ بھی عالمی منڈیوں میں لے آئے ہیں۔ اس صورت حال کا تاریخی مادیت کے حوالے سے کس طرح تجزیہ کیا جاسکتا ہے؟

اس سوال کا جواب بھی مصنف کی مارکسی نظریات کی نئی تاویلوں میں مل سکتا ہے جن کے مطابق جدید ریاستوں میں بورژوازی اپنے مفادات اور ملکیت کے تحفظ کے لئے ریاست کے تمام ذرائع پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیتی ہے۔ یہاں ریاست کے طاقتور منتظم دراصل بورژوا طبقے کے مفادات کے تحفظ کی ایک کمیٹی کے طورپرکام کرتے ہیں۔ اس پورے نظام میں عام شہریوں کو سیاست اور ریاستی امور سے الگ تھلگ کرکے انہیں کمزور اوران کی آزادی کو سلب کردیاجاتا ہے۔

جب پاکستان جیسے ملک ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ان کے عوام پسماندگی اور غربت کی لکیر سے نیچے گرتے چلے جاتے ہیں تو اسے ملکی ترقی نہیں ایک طبقے کی ترقی کہا جانا چاہیے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تو جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوکر اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے لیکن غریب عوا م کی حالت بدلنے سے انکار کرتاہے۔ اس صورت حال میں عام لو گوں کو سیاست اور اقتصادیات سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے اورحکمران طبقہ اس نظام کے ذریعے لوٹ کھسوٹ کا کام بخوبی جاری رکھتاہے لیکن برسر اقتدار طبقوں کا بھانڈہ کرونا وائرس جیسی وبا ؤں، سیلابوں اور زلزلوں میں سرعام پھوٹ جاتا ہے جب وہ خود تو ان آفات سے محفوظ رہتے ہیں لیکن عام لوگوں کو بے یار و مدد چھوڑ دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک پسماندہ عوام کو حقیقی طورپر سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنایاجاتا وہ مکمل آزادی سے ہمکنارنہیں ہوسکتے۔

زیرِ نظر کتاب مارکس کے ابتدائی ایام جن میں وہ ہیگل سے متاثر تھے، سیاسی اقتصا دیات سے دلچسپی، انقلابی دنیا میں قدم اور پھر سائنٹفک سوشلزم کے بانی کی حیثیت سے ان کے نظریاتی سفر کی داستان ہے۔ ایرک رحیم نے اس کتاب میں جس انداز میں کارل مارکس کے فکری ارتقا کا نہ صرف ان کی شعوری پختگی کی منزلوں بلکہ ان کی زندگی کے اہم ادوار کے سیاسی، اقتصادی اور عالمی محرکات کے ساتھ تجزیہ کیا ہے وہ مارکسزم کی نئی تشریحات کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔

ایک سو اکیس (121) صفحات پر پھیلی ہوئی یہ مختصر سی کتاب اگرچہ مارکس کی زندگی کے 1818ءسے 1849ء تک کے صرف تیس سالوں پر محیط ان کی دانشورانہ کاوشوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن مصنف نے جس طرح ان کی فکری جہات کو ان کی زندگی کے سیاق اور سباق کے حوالے سے بیان کیا ہے وہی اس کتاب کا سب سے اہم پہلو ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔