فاروق طارق
آخری اطلاعات کے مطابق سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر خود کش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 359 ہو گئی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ خود کش حملے نو افراد نے کیے تھے جو تمام کے تمام ایک مقامی اسلامی بنیاد پرست تنظیم سے وابستہ تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
امریکہ میں ہونے والے نائن الیون کے واقعات کے بعد شاید کسی ایک دہشت گردی کے واقعے میں اتنے لوگ جاں بحق نہیں ہوئے جتنے اس اندوہناک واقعے میں ہوئے ہیں۔ مرنے والے تمام افراد کا تعلق مسیحی کمیونٹی سے تھا جو اپنے گرجا گھروں میں ایسٹر کی خوشیاں منانے اور عبادت کرنے اکٹھے ہوئے تھے۔
خودکش دھماکے کرنے والوں میں ایک ہی مسلمان خاندان کے تین افراد بھی شامل تھے۔ ان میں سے دو بھائی اسماتھ ابراہیم اور الحام ابراہیم ایک امیر باپ کے بیٹے تھے۔ ان کا والد ابراہیم کولمبو کے نواح میں ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ جب اس کے گھر چھاپہ مارا گیا تو خودکش دھماکہ کرنے والے ایک فرد کی بیوی نے تین پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد خود کو بھی اڑا لیا۔
مسیحی کمیونٹی پر حملوں کے بعد سری لنکا میں رہائش پذیر عام مسلمانوں کی زندگی دوبھر ہو گئی ہے۔ ان پر کئی انتقامی حملے کیے جا چکے ہیں اور مذہبی فرقہ واریت اب عروج پر ہے۔
خودکش دھماکے کرنے والے دو بھائیوں کے والد ابراہیم سمیت 60 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔ ابراہیم‘ اشنا نامی ایک فرم کا مالک ہے جو سری لنکا سے مصالحہ جات برآمد کرنے والی سب سے بڑی فرم ہے۔
خودکش دھماکہ کرنے والا ایک اور نوجوان عبدالطیف جمیل محمد ہے جس نے برطانیہ سے 2006-07ءمیں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ اس ساری دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ انشان سیلاون تھا جس نے دیگر تمام کو اس کاروائی کے لئے تیار کیا تھا اور خود ایک فائیو سٹار ہوٹل میں خودکش حملہ کیا۔ اس کا ایک اور ساتھی زھران ہاشم بھی اسی طرح خودکش حملے میں مارا گیا۔ ایک دہشت گرد آسٹریلیا سے تعلیم حاصل کر کے آیا تھا۔
یوں زیادہ تر دہشت گرد پڑھے لکھے اور امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے بنگلہ دیش میں کچھ عرصہ پہلے ایک ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے والا نوجوان بھی کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
مذہبی جنونیت کا یہ خوفناک حملہ مبینہ طور پر نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لئے کیا گیا۔ اب مسیحی کمیونٹی کے انتہا پسند اس کا بدلہ لینے کی تیاریاں شروع کر دیں گے۔
اِن حالات میں یہ ضروری ہے کہ ہم مذہبی جنون اور بنیاد پرستی کی سماجی، معاشی اور نظریاتی بنیادوں کو سمجھیں۔ یہ مظہر اب ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ رجعتی رجحانات مغربی سامراج اور ان کی پروردہ ریاستوں کی مدد سے ابھارے گئے مگر اب ان کی ایک آزادانہ حیثیت بھی موجود ہے۔ یہ وہ عفریت اور بھوت ہے جو اس نظام کے رکھوالوں نے پروان تو چڑھایا لیکن اب ان کے اپنے کنٹرول سے بھی باہر ہو کے وحشت پھیلا رہا ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی کی نئی شکلیں ایک اور طرز کی فاشسٹ سوچ بن کر ابھر رہی ہےں جن میں ہندو اور عیسائی بنیاد پرستی بھی شامل ہے۔ یہ سوچ اب انفرادی نوعیت کی وارداتوں سے بڑھ کے بڑے پیمانے کے قتل عام کی کوششوں کی طرف گامزن ہے جیسا کہ سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے واقعات سے نظر آیا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں بنیاد پرستی کے پھیلاﺅ میں پچھلے تیس سالوں میں مدرسوں کی تعداد میں مسلسل اضافے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مدرسوں کو تعمیر کرنے میں سب سے زیادہ امداد سعودی بادشاہت دیتی آئی ہے۔ اور اِس سعودی بادشاہت کو قائم دائم رکھنے میں امریکی سامراج کا اہم کردار ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے جدید ترین اسلحے کا سب سے بڑا خریدار اس وقت سعودی عرب ہے۔ اور سعودیوں کے تیل کی زیادہ تر رقم پھر ان ممالک کے بینکوں میں ہے جو انقلابی رجحانات کے خلاف مذہبی دہشت گردی کی تنظیموں کو بنانے اور مظبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
یہ فاشسٹ گروہ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کو بنیاد بنا کر لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ تمام مسائل کا حل مذہب میں موجود ہے۔ اور پھر مذہب کی تشریح بھی اپنے مخصوص شدت پسندانہ اور توسیع پسندانہ انداز سے کر کے نوجوانوں کو ’جہاد‘ کے نام پہ کھلی دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یوں آگے کا کوئی راستہ دکھانے کی بجائے یہ انسانیت کو پیچھے کی طرف دھکیلنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
جنوب ایشیا میں اس وقت مذہبی انتہا پسندی زوروں پر ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا سیاسی رجحان ہے جو جبر، طاقت اورعددی اکثریت کی دہشت پیدا کر کے سیاست میں اپنا حصہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ ان کا طریقہ کار ہمیشہ غیر جمہوری ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسے عوام دشمن نظریات اور تنظیموں کے خلاف بھرپور نظریاتی جدوجہد کی جائے اور مذہب کو ریاستوں کے ہاتھ میں سیاسی اوزار نہ بننے دیا جائے۔ ریاست کا کام لوگوں کے نجی عقائد دیکھنا نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی سے ان کا تحفظ ہونا چاہئے۔
جنوب ایشیا غربت ، ناخواندگی ، بیماری اور پسماندگی کے اعتبار سے دنیا کے بد ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اسے مزید مشکلوں میں ہی دھکیل رہی ہے۔ اس خطے کی غربت کا حل مذہبی انتہا پسندی میں نہیں بلکہ انقلابی سوشلزم میں پنہاں ہے۔