فاروق سلہریا
آپ کسی عام گلی محلے میں رہتے ہوں یا کسی نام نہاد پوش علاقے میں‘ ایک چیز کا مشاہدہ ضرور کیا ہو گا کہ لوگ اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی پر گھر پہنچیں گے اور گیٹ یا دروازے کے سامنے زور زور سے ہارن بجانا شروع کر دیں گے تا کہ گھر میں موجود افراد دروازہ کھولیں۔
کوئی اتنی سی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ تھوڑی سی جسمانی مشقت کرے‘ گاڑی یا موٹر سائیکل سے اتر کر کال بیل بجا دے یا دروازہ کھٹکھٹا لے تا کہ ہمسائے پریشان نہ ہوں۔ اور پہلے سے موجود شور (صوتی آلودگی) میں مزید اضافہ نہ ہو۔
بات صرف شور کی ہی نہیں ہے۔ اس مسئلے کا ایک سماجی پہلو بھی ہے۔
صاحب یا بیگم صاحبہ جب ہارن بجا کر گیٹ کھلواتے ہیں تو یہ سماجی طاقت اور طبقاتی تفریق کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ملازم کو یاد دلایا جاتا ہے کہ صاحب کون ہے!
عام گلی محلوں کی صورت میں ابا جی، بھائی جان وغیرہ ہارن بجا کر جب دروازہ کھلواتے ہیں تو یہ پدر شاہی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔
پاکستان میں پہلے ہی کافی صوتی آلودگی، طبقاتی تفریق اور پدر شاہی پائے جاتے ہیں۔
ممکن ہے آپ بھی ایسا کرتے ہوں؟ اگر کرتے ہیں تو شعوری طور پہ اس عادت سے چھٹکارہ آپ کے ارد گرد کے لوگوں کی زندگیوں میں شاید تھوڑی سی آسانی پیدا کر دے۔
ہمارا ”روزمرہ کے مسائل“ کا سلسلہ بالکل مختصر مضامین پر مشتمل ہو گا جس میں آپ بھی کسی سماجی مسئلے اور اس کی وجوہات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اپنی تحریریں یا آرا ہمیں یہاں ارسال کریں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔