لال خان
آج کل بھارت میں ہونے والے وفاقی انتخابات کا بڑا چرچاہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے بڑے انتخابات کو کارپوریٹ میڈیا بڑا کارنامہ قرار دے رہا ہے۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس خطے میں بسنے والے تقریباً ایک چوتھائی انسانوں کی اکثریت کو ان انتخابات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
زیادہ زور اِن انتخابات کے بے پناہ حجم پر دیا جا رہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 90 کروڑ ووٹر دس لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالیں گے۔ یہ پورے یورپ، امریکہ، کینیڈا، میکسیکو، جاپان اور جنوبی کوریا کے مشترکہ ووٹروں کی تعداد سے بھی بڑھ کے ہے۔ 11 اپریل سے شروع ہونے والا یہ انتخابی عمل 7 مرحلوں میں 19 مئی تک جاری رہے گا۔ بیٹری سے چلنے والی ووٹنگ مشینیں 23 مئی کو مکمل نتیجہ فراہم کریں گی۔ وفاقی پارلیمنٹ (لوک سبھا) کی 543 نشستوں کے لئے 8000 سے زائد امیدوار اور 2000 سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں۔ لیکن اس حقیقت پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں کہ ان ووٹنگ مشینوں میں کاغذ کے ووٹوں سے زیادہ دھاندلی ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب ’دھاندلی‘ کا سب سے بڑا ہتھیار یعنی پیسہ بھی نتائج کو پیسے والوں کے حق میں بدلنے کے لئے پوری طرح چل رہا ہے۔
اس سال کے انتخابات میں کل اخراجات کا سرکاری تخمینہ دس ارب ڈالر بتایا گیا ہے۔ حقیقی اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ بھارت کے باقی ریاستی اداروں کی طرح الیکشن کمیشن بھی منافقت اور فریب کا شاہکار ہے۔ ہر طبقاتی سماج کی طرح وہاں بھی سرکاری اداروں کا زور کمزوروں یا تھوڑے سرمائے والوں پہ چلتا ہے۔ دھاندلی وغیرہ کے الزامات میں جن امیدواروں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے وہ بالعموم نہ تو دولت کی بھاری طاقت رکھتے ہیں نہ طاقت والوں کی پشت پناہی۔ لیکن جن پارٹیوں کا مرکز یا ریاستوں میں اقتدار قائم ہے یا جن کو ’بھائی لوگوں‘ کی پروردگی حاصل ہے انہیں ہاتھ لگانا کسی سرکاری ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔
بمبئی، کلکتہ، دہلی اور دوسرے بڑے شہروں کی جھونپڑ پٹیوں (کچی آبادیوں) میں دن رات چاول اور گھی سے لے کے کپڑے اور شراب تک کے دیوہیکل ٹرالے آتے ہیں۔ طاقتور امیدواروں کے ایجنٹ ان میں پڑا ہوا مال ووٹروں میں تقسیم کرکے ان کے نام اور شناخت خرید لیتے ہیں۔ اگر کوئی انتخابات میں شفافیت کے خبط کا شکار ہو تو ساتھ میں غنڈوں اور موالیوں کے گروہ طبیعت درست کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ مختلف پارٹیوں کے جیتنے والے امیدوار (یہاں کے ”الیکٹیبلز“ کی طرح) بیہودگی کی حد تک دولت کے مالک ہوتے ہیں یا پھر ایسے غنڈے جن کی دہشت ہر طرف پھیل چکی ہوتی ہے۔ یا پھر بڑے کاروباروں اور اجارہ داریوں کے ایجنٹ ہیں جنہیں سیاست میں مالکوں کے ہر کارے کی طرح اتارا جا رہا ہوتا ہے۔
ماضی کی طرح ان انتخابات میں بھی موجودہ اور سابقہ فلمی ستارے، کھلاڑی، بدنامِ زمانہ غنڈے اور اشرافیہ کے خاندانوں کے نامور افراد بڑے پیمانے پر امیدوار ہیں۔ دوسرے پسماندہ سرمایہ دارانہ معاشروں کی طرح بھارت میں محلوں، دیہاتوں اور کچی بستیوں وغیرہ میں انتخابی ٹھیکیدار ابھر آتے ہیں۔ جو ذات پات، مذہب، فرقے، برداری اوردوسرے رجعتی تعصبات کی بنیاد پر ووٹ ڈلوانے کے ٹھیکے لیتے ہیں۔ یہ بہت کم قیمت پر غریب گھرانوں کے ووٹ خریدتے ہیں اور امیر امیدواروں کو مہنگے داموں فروخت کر کے خوب منافع کماتے ہیں۔ ویسے پاکستان کے عوام کے لئے شاید یہ کوئی حیران کن عمل نہیں ہے۔
”ووٹ کی طاقت“ استعمال کرنے کے اصلاح پسندانہ وعظ و نصیحت کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ غریب عوام کریں تو کریں بھی کیا؟ پانچ سال بعد تو انہیں کوئی اضافی کمائی نصیب ہوتی ہے جس سے پیٹ کی آگ بجھانے یا دوسری ضروریات کو تھوڑا بہت پورا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ لوگوں کو اگر ووٹ سے اپنی قسمت بدلنے کی امید ہو تو اسے کبھی نہ بیچیں۔ وہ اِس نظام میں نام نہاد جمہوریت کی حقیقت اور قیمت بخوبی جانتے ہیں۔
سیکنڈل بنانے اور پھیلانے کے ماہرین کی بھی ایک فوج ظفر موج سرگرم ہے۔ اس الیکشن میں یہ شعبہ‘ عالمی سطح پر چلنے والی ”می ٹو“ مہم کا بھی بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ جوتشتیوں اور پیروں فقیروں کی بھی چاندی ہو رہی ہے۔
2014ء کے انتخابات میں بھارت کے 100 امیر ترین سیٹھوں میں سے 78 نے بی جے پی میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اب کی بار 95 فیصد ’ڈونیشن‘ مودی کو ملے ہیں۔ لیکن مودی سرکار اپنے اقتدار کا بھی بھرپور استعمال کر رہی ہیں۔ بہت سے مخالف امیدواروں کے خلاف کرپشن، ٹیکس چوری اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت کاروائیوں کی یلغار شروع کر دی گئی ہے۔ اسی طرح فروری 2019ء میں حکومت نے کسانوں کی امداد کے لئے جو مالیاتی پیکیج شروع کیا تھا اس کی ٹائمنگ ایسی رکھی گئی ہے کہ عین ووٹ ڈالنے سے ایک روز پہلے ان غریب کسانوں کو یہ رقوم حاصل ہو رہی ہیں۔ دھن دولت کی اس بوچھاڑ میں جمہوریت، انتخابات، آئین اور آزادی کا کھلواڑ ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ امبانیوں کے 27 ٹیلی ویژن چینلوں سمیت سارے کارپوریٹ میڈیا کا کام یہ واردات کروانا ہے کہ ہندوستان کے ایک ارب عام انسانوں کو درپیش مسائل پر کوئی انتخابی مہم یا سیاسی بحث نہ تشکیل پا سکے۔ یعنی مذہبیت، مسلمان و پاکستان دشمنی، بھارت کو لاحق بیرونی حملے سے خطرات اور بھارتی حکمرانوں کی جعلی بہادری کے ایشوز سے یہ الیکشن باہر ہی نہ نکل سکیں۔ اس میں کانگریس سے لے کے سماج وادی پارٹی اور نام نہاد سیکولر، ترقی پسند اور علاقائی پارٹیاں بھی ملوث ہیں۔ جنہوں نے عوام کے حالات بدلنے کا کوئی لائحہ عمل دیا ہے نہ ہی بی جے پی کے مدمقابل ان کے پاس کوئی ٹھوس متبادل معاشی و سماجی پروگرام ہے۔ سرمایہ داری کی جمہوریت میں ہر طرف مالیاتی سرمائے کا ہی راج ہے۔ اس نظام کے خلاف اسی کے پروردہ انتخابات میں کیسے کوئی تبدیلی یا بغاوت کا علم بلند ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر نریندرمودی کے جنگی جنون اور پاکستان دشمن کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ایک بہت بڑی جعل سازی ہے۔ نہ تو مودی کوئی حقیقی اور فیصلہ کن جنگ کر سکتا ہے نہ ہی پاکستان کو توڑنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے۔ کیونکہ جس بنیاد پر اس کی ساری نفرتوں بھری سیاست ابھری ہے اس کو وہ کیوں ختم کرنا چاہے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں جب حکمران داخلی پالیسیوں میں ناکام ہوتے ہیں تو بیرونی دشمن کے خو ف اور دشمنی کو ابھار کر عوام کی باغی تحریکوں اور جدوجہد کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں دائیں بازو کے ناکام حکمرانوں نے ان دشمنیوں کے ذریعے اپنی حاکمیتوں کو طوالت دینے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ لیکن دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں دنیا کی سب سے بڑی غربت، ناخواندگی، جہالت، غلاظت اور بیماری بھی پلتی ہے۔ 72 سال کی نام نہاد آزادی کے بعد جنوب ایشیا کی بدحالی غلامی کے ادوارسے بھی بدتر ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن ان انتخابات کی انتہائی جعل سازی کے باوجود گنتی کی چند ایک جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں عام لوگوں نے دھنوانوں کو چیلنج کیا ہے۔ ایک مثال بہار میں بابو سرائے کے حلقے کی ہے جہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا امیدوار کنہیا کمار‘ بی جے پی کے ایک وزیر کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے۔ یہاں نوجوانوں اور محنت کشوں کے تحرک نے طبقاتی جدوجہد کی طاقت کو واضح کیا ہے۔
بھارت سمیت برصغیر کے عوام طبقاتی جدوجہد کی انقلابی تحریک میں ابھر کر ہی اس نظام کے خلاف کوئی فیصلہ کن لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ انتخابی سیاست کا فریب اور ریاکاری ہو یا براہِ راست جبر‘ انہیں شکست دینے کے لئے ا س نظامِ زر کو اکھاڑ نا لازم ہے۔ مالیاتی سرمائے کی آمریت اور غلبے کو توڑ کر ہی حقیقی جمہوریت اور آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔