عطا انصاری
پیر کی رات ناروے میں دائیں بازو کی شکست کے بعد،بائیں بازو کی تین جماعتیں مخلوط حکومت قائم کرنے کے کوششوں میں مصروف ہوگئیں۔
آٹھ برس تک وزیراعظم رہنے والی ایرنا سولبرگ نے پولنگ اسٹیشن بند ہونے کے صرف دو گھنٹے بعد، یعنی الیکشن نتائج کے حتمی اعلان ہوجانے سے بہت پہلے ہی اپنی ہار قبول کرلی اور حریف جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ یوناس گار اِستورے کو اپنے ہی جلسے میں تقریر کے دوران سر عام مبارکباد پیش کر دی اور اپنے مداحوں سے بے پناہ داد وصول کی۔
ووٹنگ رات نوں بجے ختم ہوئی اور دس منٹ کے بعد ہی الیکشن ڈائیکٹریٹ نے پیشگی ڈالے گئے ووٹوں کی بنیاد پر اپناتخمینہ پیش کردیا کہ کس پارٹی کو کتنے ووٹ اور پارلیمینٹ میں کتنی نشستیں ملنے کاامکان ہے۔ یہ تخمینہ اکثرحتمی نتائج کی طرف کافی حدتک درست اشارہ کردیتا ہے۔
دو گھنٹے کے اندر ہی معاملہ مزید صاف ہوگیا۔ ستر اسی فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گئی اور یک بعد دیگر ہر پارٹی کا لیڈر اپنے اپنے اسٹیج پر رونما ہو کر اپنے ورکرز و ووٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوا نظر آیا۔ کسی نے اپنی جیت کا جشن منایا تو کسی نے اس عزم کے ساتھ ہار تسلیم کی کہ چار برس بعد پارلیمینٹ کے انتخابات کی تیاریاں اور بہتر کریں گے، عوامی مسائل کے حل تلاش کرنے اور اپنا موقف لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی مزید محنت کریں گے۔ ہر لیڈر نے یہ بات ضرور دہرائی کہ ہار جیت جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ بھی کہا کہ عوام کی رائے کا صرف احترام کیا جا سکتا اور نتائج کے سلسلے میں صرف اپنی ہی کارکردگی بہتر بنانے پر بحث ہوسکتی ہے۔
جلد ہی وزیر اعظم بننے والے لیبر پارٹی لیڈر یوناس گار اِستورے جہاں اس بات پر بے حد خوش تھے کہ وہ اب سوشلسٹ لیفٹ پارٹی اور سینٹر پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیں گے وہیں انھوں نے دائیں بازو کی جماعت ہائیرے کی موجودہ وزیر اعظم کے گزرے آٹھ سال کے بارے میں کہا کہ وہ ملک کے لئے ایک فعال وزیراعظم ثابت ہوئی ہیں، ایرناسولبرگ کی اپنے عہدے سے دیانتداری، ملک و قوم سے محبت و وفاداری کی تعریف کی، خصوصاً بین الاقوامی سطح پر انکی صلاحیتوں کو سراہا۔ ان تعریفی کلمات پر اِتورے نے اپنے ہی مّداحوں سے بے پناہ داد وصول کی۔
پارلیمینٹ کی 169 نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین میں سے 47 فیصد خواتین ہیں اور کم و بیش آٹھ کا تعلق تارکین وطن کمیونٹی سے۔
یہاں نیشنل اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نارویجن شہریت کی شرط ہے، مگر لوکل انتخابات میں یہ شرط نہیں ہے۔ تین سال ناروے میں رہنے کے بعد ہر شخص بلدیاتی و صوبائی الیکشن میں ووٹ بھی ڈال سکتا ہے اور منتخب بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایک پاکستانی نژاد نارویجن کا وزیر بننے کا قوی امکان ہے۔
الیکشن کے نتائج اور تمام سیاست دانوں کی نہایت ہی مختصر تقاریر سننے کے بعد ہم رات بارہ بجکر چالیس منٹ پہ ٹی وی بند کرکے سوگئے اور صبح سویرے اٹھ کر کام پر چلے گئے۔ اب چند روز بعدنئی حکومت کا اعلان ہوجائے گا اور ایرنا سولبرگ دفتر وزیر اعظم کی چابی اِستورے کو دے کر سبکدوش ہوجائیں گی۔
آخر میں یہ کہنا تو بیکار ہی ہو گا کہ اس بار بھی یہاں الیکشن پر تیری ماں کی ’XXX‘ تیری بہن ’XXXنہیں ہوئی…