حارث قدیر
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی جماعت اسلامی نے پابندی عائد کئے جانے کے بھارتی وزارت داخلہ کے فیصلہ کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کیلئے دائر کی گئی پٹیشن میں جماعت اسلامی جموں کشمیر کے علیحدگی پسند سیاست اور عسکریت پسند سیاست سے تمام روابط کی تردید کی ہے اور اپنے آپ کو پاکستان نواز یا الحاق پاکستان کا حامی قرار دینے کی بجائے بھارتی آئین و قانون کی پاسداری کرنے والی تنظیم قرار دیا ہے۔
جماعت اسلامی نے سید علی شاہ گیلانی اور اشرف صحرائی سے بھی مکمل لا تعلقی کا اعلان کیا ہے اور جماعت اسلامی کو 5 ہزار اراکین کی حامل ایک مذہبی سماجی جماعت قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ جماعت اسلامی صرف مذہبی تعلیمات کے فروغ اور فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
یہ پٹیشن جماعت اسلامی جموں کشمیر کی جانب سے گزشتہ سال جنوری میں دائر کی گئی تھی، جس پر بھارتی وزارت داخلہ کے اعتراضات اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے تا حال سماعت شروع نہیں ہو سکی، تاہم جماعت اسلامی کی جانب سے حال ہی میں سماعت کی تاریخ جلد مقرر کرنے کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے پٹیشن پر سماعت دسمبر کی بجائے 11 اکتوبر کو مقرر کر دی گئی ہے۔
جماعت اسلامی جموں کشمیر پر فروری 2019ء میں بھارتی وزارت داخلہ نے 5 سال کیلئے پابندی عائد کر تے ہوئے اسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا تھا۔ وزارت داخلہ نے جماعت اسلامی پر ملکی سلامتی اور امن و امان کیلئے نقصان دہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے، ملکی وحدت اور سالمیت کو متاثر کرنے جیسے الزامات عائد کئے تھے۔
درخواست میں جماعت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کبھی تشدد کی حمایت نہیں کی اور وادی کشمیر میں سرگرم سب سے بڑے عسکری گروہ حزب المجاہدین کے ساتھ جماعت اسلامی کی کبھی بھی کوئی وابستگی نہیں رہی ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی نے 1987ء کے اسمبلی انتخابات تک جمہوری عمل میں حصہ لیا، تاہم بڑے پیمانے پر دھاندلی کے بعد جماعت نے انتخابی عمل سے اس وقت تک کیلئے علیحدگی اختیار کر لی تھی جب تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 2002ء میں جماعت اسلامی نے اپنی رکنیت سازی کے عمل کی از سر نو چھان بین کی تاکہ ایسے افراد کو ختم کیا جا سکے جو عسکریت پسندی، انتہا پسندی، زیر زمین یا غیر آئینی ذرائع کی حمایت کر سکتے ہیں۔ 2004ء میں جماعت نے سید علی شاہ گیلانی اور اشرف صحرائی کو جماعت سے نکال دیا تھا اور اسی سال ان دونوں نے پاکستان نواز تحریک حریت قائم کی تھی۔ پٹیشن کے مطابق یہ دونوں احباب جماعت کو مکمل طور پر ریاست میں تنازعات کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے وقف کرنے پر بضد تھے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کے موقف کی وجہ سے جماعت میں پھیلنے والی بے چینی ان دونوں کو باہر نکالنے کا سبب بنی۔ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ تحریک حریت اور جماعت اسلامی کے آئین کا جائزہ یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ دونوں تنظیمیں متضاد نظریات کی حامل ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اگست میں بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے جماعت اسلامی سے منسلک دہشت گردی کی مالی معاونت کے ایک مقدمہ کی وجہ سے جماعت اسلامی جموں کشمیر کے 61 کے قریب ٹھکانوں پر چھاپے مار کے تلاشی لی تھی، جس کے بعد 11 اگست کو جماعت اسلامی کی جانب سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کیا گیا تھا جس میں جماعت اسلامی کو ایک پر امن، مذہبی سماجی تنظیم قرار دیکر ہر طرح کی عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی سے لا تعلقی ظاہر کی گئی تھی۔
مذکورہ پریس ریلیز جاری کرنے کے فوری بعد جماعت اسلامی نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور پٹیشن پر سماعت جلد مقرر کرنے کی درخواست دی، عدالت نے یہ درخواست قبول کر لی۔ اب یہ سماعت رواں سال 13 دسمبر کی بجائے 11 اکتوبر کو کی جائے گی۔
فروری 2019ء میں جماعت اسلامی کو غیر قانونی تنظیم قرار دیئے جانے کے بعد جماعت کے سیکڑوں اراکین کو گرفتار یا نظر بند کیا گیا، بیشتر جموں کشمیر سے باہر بھارت کی دیگر ریاستوں کی جیلوں میں بند ہیں۔ جماعت اسلامی جموں کشمیر کی 68 سالہ تاریخ میں یہ دوسر اموقع ہے کہ جموں کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ نے جماعت اسلامی پر الزام عائد کیا ہے کہ جماعت کی مقامی تنظیم نے 1947ء کے بعد جماعت اسلامی پاکستان سے ہدایات پر عمل شروع کیا اور جموں کشمیر کے بھارت سے الحاق پر سوال اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ یہ بھی الزام عائد ہے کہ حزب المجاہدین جماعت کا عسکری ونگ ہے۔ جماعت اسلامی کو کل جماعتی حریت کانفرنس کی تشکیل کے پیچھے بنیادی محرک قرار دیا گیا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ کے مطابق بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف تھانوں میں جماعت کے مبینہ اراکین کے خلاف 169 مقدمات درج ہیں اوران رہنماؤں پر سنگ بازی، آتش زنی، نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور غیر قانونی سرگرمیوں کے انعقاد کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ این آئی اے کی جانب سے بھی تنظیم کے مبینہ اراکین کے خلاف 10 مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔
پٹیشن میں جماعت اسلامی نے مقدمات میں مطلوب تمام افراد سے بھی لا تعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مقدمات میں نامزد 2 افراد کے علاوہ کسی بھی ملزم کا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مقدمات میں نامزد افراد مسلمان ہیں اور جماعت ایک اسلامی تنظیم ہے، محض مسلم نام ہونے کی بنیاد پر تمام ملزمان کو جماعت کا رکن ظاہر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں جماعت اسلامی جموں کشمیر کی بنیاد 1953ء میں جماعت اسلامی ہند سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد رکھی گئی تھی۔ ابتدا میں جماعت اسلامی کو پاکستان نواز سمجھا جاتا تھا، تاہم 1965ء سے جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ لینے کا آغاز کیا۔
1972ء کے انتخابات میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی تمام سیاسی قیادت شیخ عبداللہ خاندان اور یہاں تک کہ سی پی آئی ایم کی قیادت کو بھی گرفتار کر کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیاتھا، اس وقت کانگریس اور جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
جماعت اسلامی نے اس وقت بھارتی ریاست کے ساتھ ساز باز کر کے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہریوں کی رائے کو بلڈوز کرنے میں بھارتی ریاست کا ساتھ دیا۔ اس سب کے باوجود جماعت اسلامی 75 نشستوں میں سے محض 5 نشستیں ہی جیتنے میں کامیاب ہو سکی، کانگریس نے 58 نشستیں حاصل کیں اور آزاد امیدواران 9 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔
جماعت اسلامی 1987ء کے انتخابات تک انتخابی عمل میں حصہ لیتی رہی اور 4 سے 5 حلقوں میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی مرکز کے زیر انتظام 2 علاقوں میں تقسیم سے قبل ویلی کشمیر میں 46 حلقہ انتخاب تھے۔
1987ء کے انتخابات میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ نامی اتحاد کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا گیا اور اتحاد کو محض 4 ہی نشستیں ملیں، تاہم اس انتخاب میں ریاست کی مداخلت اور دھاندلی کی وجہ سے احتجاجی تحریک کا بھی آغاز ہوا، جو جلد ہی پاکستانی ریاست کی بذریعہ لبریشن فرنٹ مداخلت کے نتیجے میں عسکری تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔
بعد ازاں لبریشن فرنٹ کا زور توڑنے کیلئے جماعت اسلامی پاکستانی ریاست کا اہم ہتھیار بنی اور حزب المجاہدین کے نام سے عسکری گروہ کو جماعت کی عسکری بھرتیوں کی بنیاد پر متحرک کیا گیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے زیر سایہ ’افغان جہاد‘ میں لڑنے والے جنگجوؤں اور پاکستانی و بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں جماعت کے اراکین اور کم عمر نوجوانوں کو تربیت فراہم کر کے پہلے لبریشن فرنٹ کے جنگجوؤں کو ختم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، کشمیری پنڈتوں کا قتل عام کیا گیا، اس عمل میں بھارتی ریاست کی مدد کرنے کے الزامات بھی حزب المجاہدین اور جماعت کے اراکین پر موجود ہیں۔ اس دوران حزب المجاہدین بھارتی ریاست کے خلاف بھی عسکری سرگرمیوں میں مصروف رہی۔
بھارتی ریاست کی جانب سے قائم کردہ ’اخوان فورس‘ (جو دراصل حزب المجاہدین اور اس سے منحرف گروپ مجاہدین اسلام سے ہی منحرف ہونے والے عسکریت پسندوں پر مشتمل گروہ تھا) اور حزب المجاہدین کے درمیان تصادموں میں بھی سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ قبل ازیں یہ تصادم لبریشن فرنٹ، حزب المجاہدین اور مجاہدین اسلام کے درمیان بھی ہوتے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی پر 1990ء میں بھارتی ریاست کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم جماعت اسلامی کی جانب سے اپنے حزب المجاہدین کے ساتھ تعلقات کی تردید بھی نہیں کی تھی اور نہ ہی پابندی ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1992ء میں جماعت اسلامی سمیت دیگر دو درجن سے زائد جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس قائم کی گئی۔
1998ء میں جماعت اسلامی میں اختلافات سامنے آئے اور امیر جماعت وقت غلام محمد بھٹ نے جماعت کے ہر قسم کی عسکریت پسندی سے تعلقات کی تردید کر دی، حزب المجاہدین سے بھی لا تعلقی اختیار کر لی۔ سید علی گیلانی اور اشر ف صحرائی نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا اوربالآخر سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی نے 2004ء میں تحریک حریت کی بنیاد رکھ دی۔
دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور پاکستان کی جماعت اسلامی پورے پاکستان اور دنیا بھر میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں جماعت اسلامی اور حزب المجاہدین کی قربانیوں کا تذکرہ کر کے چندہ جمع کرنے میں مصروف رہی اور علی گیلانی اور اشرف صحرائی کو بھی قائدین تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔
جماعت اسلامی کے انہی جرائم کی وجہ سے آج بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھارتی ریاست جبر سے نجات کی تحریک نہ صرف مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئی بلکہ ویلی کشمیر کے کل 6 اضلاع میں سے اڑھائی اضلاع سے بھی کم علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ مذہبی بنیادوں پر تحریک کو تقسیم کرنے کیلئے بطور پراکسی استعمال ہونے والی جماعت اسلامی اور اتحادیوں نے نہ صرف جموں کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد کو مذاہب، ثقافتوں اور قومیتوں میں تقسیم کیا بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیادیں بھی ڈالیں اور شیعہ، سنی کی بنیاد پر کشمیریوں کے مابین نفرتوں کی بنیادیں رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
ان تمام تر جرائم کے بعد آج جماعت اسلامی کی جانب سے عسکریت ہی نہیں بلکہ جموں کشمیر کی آزادی اور حق خود ارادیت کے مطالبہ سے بھی دستبرداری اختیار کرتے ہوئے بھارتی آئین اور قانون کی پاسداری کے ’بیان حلفی‘ دہلی ہائی کورٹ میں جمع کروا دیئے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی پراکسی تنظیموں نے اپنے اور سامراجی مذموم مقاصد کے حصول کیلئے بھارتی فوجی جبر اور چھاؤنیوں کے زیر سایہ گھٹن کا شکار کشمیری نوجوانوں کوانقلابی نظریات کی بجائے بندوق کا راستہ دکھایا اور آج انہیں 9 لاکھ بھارتی فوج کے سامنے نہتے قتل ہونے کیلئے چھوڑ کر ایک مرتبہ پھر خود کو بھارتی ریاست کے آگے ساز باز کیلئے پیش کر دیا ہے۔
جموں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو جتنے گھاؤ اس پراکسی جنگ میں لگائے گئے ہیں، جتنا خون ان کا بہایا گیا ہے، اسکا انتقام جہاں قابض ریاستوں اور جموں کشمیر کے تنازعہ کی بنیاد رکھنے والے نظام سرمایہ داری سے لیا جانا مقصود ہے وہاں بنیاد پرستی اور پراکسی وار کے ہر اس ہرکارے کو بھی اس انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا جس نے کشمیری نوجوانوں کے خون کا سودا کیا اور نوجوانوں کی امنگوں، خواہشات اور خود کو فروخت کر کے مال کمایا ہے۔