فاروق طارق
آج کل ایک بات بار بار کی جا رہی ہے کہ ”لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو مرتے ہیں، نہیں کرتے تو بھی مرتے ہیں۔ بہتر ہے، معیشت بچا لی جائے، لوگ تو حادثوں میں بھی مرتے رہتے ہیں“۔ یہ بیانیہ جان بوجھ کر مقبول کیا جا رہا ہے تا کہ کنفیوژن قائم رہے اور شائد ان کی معیشت بچ جائے۔ حقیقت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ کرونامریضوں میں مسلسل اضافے کے وقت لاک ڈاؤن کھولنا عوام کو جلد مارنے کے مترادف ہے۔
تمام سینئر ڈاکٹرز اور طبی ماہرین یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ انتہائی غلط فیصلہ ہے اور اس کا خمیازہ ہم کو اب بھگتنا پڑے گا۔ کرونا بڑھنے کے رحجانات سے نظر آ رہا ہے کہ اس کا پیک ٹائم ابھی آنا باقی ہے۔ بھارت میں کرونا مریضوں کی تعداد 11 مئی تک 69,140 ہو چکی تھی اور ایک دن میں تقریباً دو ہزار افراد اس کا شکار ہوئے۔ پاکستان میں گذشتہ روز تک یہ تعداد 30,941 ہو چکی تھی۔
مارچ کے وسط سے ہی عمران خان حکومت کی کرونا حکمت عملیاں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ اس وقت ایران، عراق سے آنے والے زائرین کو تفتان بارڈر پر روک کر انتظامات کرنے کی بجائے انہیں سینکڑوں میل دور شہروں میں منتقل کیا گیا اور باقی کو وہیں سے عمران کے چہیتے زلفی بخاری کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا۔ اسی دوران رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت والوں نے اپنا اجتماع ختم کرنے سے انکار کیا اور پھر ان کی تبلیغی جماعتوں کے ملک بھر میں جانے سے کرونا مزید پھیل گیا۔
اس دوران عمران خان مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو کی بحث میں الجھے رہے۔ ایک روز وہ ٹی وی پر کہتے کہ لاک ڈاؤن نہیں کریں گے۔ اسی روز شام کو ان کی اپنی پنجاب اور خیبر پختون خواہ حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس ایک قدم نے سب کو بتا دیا کہ اس ’منتخب‘ وزیر اعظم کی کیا حیثیت ہے اور یہ بھی کہ فیصلے وہی کر رہے ہیں جو عمران خان کو بڑی تگ و دو سے اقتدار میں لائے تھے۔ یہ’گڈ گورنس‘ کی عمدہ مثال تھی۔
لاک ڈاؤن لفظوں میں تھا عمل میں نہیں۔ یہ ایک مذاق تھا۔ عمران خان کی حکومت اس دوران آئیں بائیں شائیں کرتی رہی۔ کرونا نے حکمرانوں کی صحت بارے حکمت عملیوں کو بے نقاب کیا اور بتا دیا کہ حکومت عملی طور پر اس بحران سے نپٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ جو ماسک تھے وہ چین کو ایکسپورٹ کر دئیے گئے۔ کوئی حفاظتی کٹس موجود نہ تھیں۔ جو ادارہ ایمرجنسی سے نپٹنے کے لئے قائم کیا گیا تھا اس کا سربراہ ایک حاضر سروس جرنیل ہے اور اس ادارے نے تو ابھی 2005ء کے متاثرین کی بحالی کا کام بھی مکمل نہیں کیا وہ آنے والے بحرانوں کی کیا تیاری کرتا؟
اپنے پونے دو سالوں میں، حکومت نے تو صحت کی خدمات تمام شہریوں تک پہنچانے کی بجائے ان کو بیچنے اور پرائیویٹ افراد کے حوالے کرنے کا ہی تو کام کیا تھا۔ ان احتجاجی ڈاکٹروں اور پیرا میڈکس کو مارا پیٹا جا رہا تھا جو حفاظتی کٹس کا مطالبہ کر رہے تھے۔
کرونا سے نپٹنے کے لئے جو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا بڑا چرچا رہا کہ یہ روزانہ ملتا ہے اور پورے ملک کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کا سربراہ اسد عمر کو بنایا گیا جو ابھی ابھی عمران خان کی گڈ بک میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔ جب نئی نئی حکومت بنی تو عمران خان اور تمام انصافئے اسد عمر کو معیشت کا زبردست ماہر مانتے تھے۔
چند ماہ میں اسد عمر کو وہاں سے کسی عزت کے بغیر نکال دیا گیا اور انکی جگہ حفیظ شیخ کو لایا گیا۔ اب شائد اسد عمر کا وہی حال ہونے والا ہے جو ابتدائی چند ماہ کے بعد خزانہ، ریوینو اور اکنامک آفیئر کے وزیر کے طور پر ہوا تھا، انہیں ان تینوں وزارتوں سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ اسد عمر کے دلائل عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ اسی اسد عمر نے کہا تھا پاکستان میں ہر ماہ چار ہزار افراد ٹریفک حادثوں میں فوت ہوتے ہیں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد تو کچھ بھی نہیں۔
حکومت اپنی کرونا حکمت عملی پریشر گروہوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے گاہے بگاہے تبدیل کرتی رہتی ہے۔ رمضان سے پہلے یہ مولویوں کے آگے جھکی اور مساجد میں اجتماع کرنے کی اجازت دے دی۔ اب لاک ڈاؤن ختم کیا گیا ہے تا کہ تاجروں اور سرمایہ داروں کو عید پر پیسے کمانے کا موقع مل سکے اور یہ لوگوں کی چمڑیاں اتار لیں۔ رمضان میں ہونے والی مہنگائی سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ’نمازی پرہیزی‘ تاجر مقدس مہینوں میں عوام کی کس قدر درگت بناتے ہیں۔ انکے خیال میں کرونا نے جو کرنا ہے کر لے، ہزاروں مزدوروں کو بڑی فیکٹریوں سے تنخواہ ادا کئے بغیر ہی عید سے پہلے فارغ کیا گیا ہے۔ ان مزدوروں کی عید کی فکر نہیں ہے۔
یہ لاک ڈاؤن کھولیں یا نہ کھولیں، پاکستانی معیشت تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہونے والی ہے۔ یہ لاک ڈاؤن کھول کر اپنے ووٹ بچانے کے چکروں میں ہیں۔ اس سے معیشت تو بہتر ہونے والے نہیں۔ پوری دنیا بند ہے یہ کدھر برآمد کریں گے۔
بہتر ہوتا ایک مکمل لاک ڈاؤن کرتے، بے روزگاروں کو کم از کم تیس ہزار مہینہ دینے کا بندوبست کرتے جس سے لوکل مارکیٹ میں کچھ جان پڑتی۔ ایکسپورٹ کو فی الحال بھول جاتے، کرونا کو ختم کر لیتے تو مارکیٹ بحال ہونے کے امکانات تھے مگر اب نہ مارکیٹ بحال ہو گی اور نہ کرونا ختم ہو گا۔ یہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔ کرونا نے جو چیلنج عمران خان کو دیا تھا اس سے نپٹنے میں عمران خان حکومت ناکام ہے۔ یہ پاکستانی تاریخ کی سب سے غیر مقبول حکومت ثابت ہو گی۔