پاکستان

بھٹو چورن اب عمرانی پنی میں

عطا انصاری (اوسلو)

جب بھنور میں پھنسے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی حالیہ تقریر میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کیا تو مجھے محترمہ بینظیر بھٹو کی کتاب ’ڈاٹر آف ایسٹ‘ کے چند جملے یاد آگئے اور 1977ء سے متعلق وہ امریکی دستاویز ات بھی، جن تک کئی سال پہلے ہی رسائی عام کر دی گئی تھی۔

کتاب میں لکھی گئی بات تک پہنچنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بینظیر اور ان کے والد دو مختلف ادوار اور مزاجوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ بینظیر کے سیاسی کیریئر کا آغاز آرمی کی سیاست میں مداخلت اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجہد سے شروع ہوا، مگر انہوں نے ہر موقع پر ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ اسکے برعکس ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو جمہوریت پسند بننے سے پہلے مارشل لا کی گود میں پروان چڑھے تھے۔ لیڈر وہ البتہ تب ہی بن چکے تھے، جب وہ ایک ڈکٹیٹر کے وزیر خارجہ تھے۔ ان کی مقبولیت کا سبب ان کی پرکشش شخصیت، گفتگو سے جھلکتی قابلیت، انگریزی زبان پر گرفت، میڈیا کا نرم گوشہ اور 1965ء کی جنگ میں وطن پرستی کا رویہ تھی۔ یہ سب کچھ وہ درحقیقت پیپلز پارٹی کے وجود میں آنے سے پہلے ہی حاصل کر چکے تھے۔ ان میں اور بینظیر میں ایک اور رویہ مختلف تھا۔ وہ ان کا جاگیردارانہ اور خود پرستی سے بھرپور مزاج تھا۔ بعد میں وہ ایک نئے ڈکٹیٹر کے ہاتھوں ناحق قتل کر دیئے گئے۔ تاہم مارشل لا اور پھانسی سے پہلے 1977ء میں ہونے والی پہیہ جام ہڑتالیں، پرتشدد مظاہرے، سینکڑوں اموات اور فوج سے مدد طلب کرنا بھی بھٹو کے دور حکومت میں ہی ہوا تھا۔

1977ء کے اور آج کے حالات بہت مختلف ہیں مگر وزیر اعظم عمران خان کا جیب سے خط نکال کر یہ تاثر دینا کہ ایک بیرونی طاقت انہیں جان سے مار دینا چاہتی ہے اور یہ بھی کہ اپوزیشن غیر ملکی پیسے سے انکی حکومت ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے، دونوں ہی باتیں 1977ء کے بھٹو کے بیانات سے مماثلت رکھتی ہیں۔

مگر کیا بھٹو سچ بول رہے تھے؟

کیا عمران خان سچ بول رہے ہیں یا خالی چپو چلا رہے ہیں؟

عمران خان کا ذوالفقار علی بھٹو سے موازنہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ پیپلز پارٹی والوں کے سینے اس وقت فخر سے پھول گئے ہوں جب عمران خان نے اپنی آخری تقریر میں بھٹو کو عظیم لیڈر کہا، مگر وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اپنے حریف کے بڑوں کی تھوڑی سی تعریف کر دینا اپنا بڑا پن دکھانے کا ایک آزمودہ فارمولہ ہے۔ جب ساتھ میں تقریر کرنے والا یہ بھی بیان کرے کہ اس کے ساتھ بھی وہی زیادتی ہو رہی ہے جو حریف کے بڑوں کے ساتھ ہوئی تھی، تب فوراً یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ یہ کسی اسپن ڈاکٹر کا رٹایا سبق تو نہیں سنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح کے بے شمار حربے اور سبق رٹانے کیلئے ہی پبلک ریلیشن آفیسر اور کمیونیکیشن مشیر رکھے جاتے ہیں، جو تقریر، نشر و اشاعت کے ساتھ عوامی نفسیات و مزاج کا بخوبی علم رکھتے ہیں۔

ویسے پاکستان میں ان کمیونیکیشن مشیروں کا کام بہت آسان ہے، یہ کوئی بھی مکر یا نیم سچ سے آسانی سے ایک اہم میڈیائی موضوع اس لئے بنوا لیتے ہیں کیونکہ ہمارا اجتماعی رویہ بھی نیم حکیم خطرہئ جان والا ہی ہے۔ واقعات کو مرضی سے توڑ موڑ کر پیش کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ ہر صورت کوئی ایسا نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس سے ان کے موقف کی جے جے کار ہو، چاہے وہ جھوٹ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو، بس واہ واہ ہونی چاہیے۔

یہ درست ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان 1965ء میں ہتھیاروں کی عدم فراہمی، پاکستان کے کشمیر پر موقف کی عدم حمایت اور فرانس سے نیوکلیئر پاور پلانٹ خریدنے جیسے موضوعات پر اہم اختلافات موجود تھے، مگر کیا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے پھیلایا جانے والا یہ تاثر درست تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف ایک بڑی امریکی سازش ہو رہی ہے؟

آج تک پاکستان میں تو اس ’سازش‘ کی باقاعدہ انکوائری نہیں ہوئی۔ بینظیر بھٹو 1977ء کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ انہیں پاکستان کے حالات بگاڑنے یا بھٹو کی حکومت گرانے کی کوششوں کے پیچھے امریکی سازش کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ بھٹو کے مخالفین میں 25 ملین ڈالر تقسیم کرنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے سی آئی اے دستاویزات بھی چھان ماریں مگر یہ ثابت کرنا ممکن نہ تھا کہ پاکستان میں حالات بگاڑنے میں امریکی سی آئی اے کا کوئی کردار تھا۔

بینظیر بھٹو اپنے تجزیئے میں بطور نتیجہ لکھتی ہیں کہ 1977ء میں پاکستا ن میں جو حالات خراب ہوئے، (جسکے بعد مارشل لا آیا اور بھٹو کو پھانسی دی گئی) وہ سب اس لئے برپا ہو سکا، کیونکہ چند افراد نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ چند افراد یہ سب کچھ روک سکتے تھے۔ ملک میں ہڑتالوں اور تشدد کے واقعات کو ایم این اے لیڈر شپ روک سکتی تھی اور چیف آف آرمی اسٹاف اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کی بجائے ملک کے فائدے کو ترجیح دے سکتے تھے۔

بینظیر بھٹو کے نتیجے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد اور ملک کی موجودہ قیادت کے برعکس دوسروں کی سازشوں پر کم اور بحیثیت لیڈر اپنے انفرادی رویوں پر توجہ دینا زیادہ ضروری سمجھتی تھیں۔

یہ تو معلوم نہیں کہ چند روز بعد پاکستان کا وزیراعظم کون ہو گا، مگر یہ طے ہے کہ تاریخ میں عمران خان کو بھی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی طرح ’بھٹو نام کا چورن‘ بیچنے والوں کے نام سے ہی یاد کیا جائے گا۔

Atta Ansari
+ posts

عطا انصاری تین دہائیوں سے ناروے کے قومی نشریاتی ادارے این آر کے (NRK) سے منسلک ہیں اور متعد ایوارڈ یافتہ ڈاکومینٹری فلمیں تخلیق کر چکے ہیں۔