فاروق سلہریا
پیر کو ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد نے زبردست کامیابی حاصل کر کے دائیں بازو کی آٹھ سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ عنقریب جرمنی میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہاں بھی توقع کی جا رہی ہے کہ لیفٹ گرین جماعتیں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ ان انتخابات کی وجہ سے یورپ میں یہ بحث جنم لے چکی ہے کہ کیا یورپ بائیں طرف مڑ رہا ہے۔ اس کا جواب تو وقت ہی دے گا فی الحال بات ناروے تک محدود رکھتے ہیں جہاں بائیں بازو کے اتحاد: لیبر پارٹی (یعنی سوشل ڈیموکریٹس)، لیفٹ سوشلسٹ پارٹی اور سنٹر پارٹی نے 89 نشستیں جیت کر سادہ اکثریت ہی حاصل نہیں کی بلکہ چند سال قبل بننے والی کیمونسٹ جماعت ’ریڈ‘ (سرخ) نے بھی 8 نشستیں حاصل کی ہیں۔ گذشتہ پارلیمنٹ میں اس جماعت کی صرف ایک نشست تھی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جماعت پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لئے کم از کم چار فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پر بھی پورا اتری۔
معروف نارویجن اخبار کلاسے کمپئین(طبقاتی جدوجہد) نے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”رجعت پرستوں کے پاس اب کوئی نیا آئیڈیا بچا نہیں تھا۔ تبدیلی کے لئے سازگار وقت آ چکا تھا“۔
انفرادی سطح پر سب سے زیادہ ووٹ لیبر پارٹی نے حاصل کئے۔ اس کی 48 نشستیں ہیں اور اسے 26.4 فیصد ووٹ ملے۔ویسے 1927ء کے بعد یہ لیبر پارٹی کی دوسری بدترین انتخابی کارکردگی تھی۔
دوسری بڑی سیاسی جماعت کنرویٹو پارٹی (Hoyre) تھی۔ اسے 36 نشستیں اور 20.4 فیصد ووٹ ملے۔ گذشتہ الیکشن کے مقابلے پر 4 فیصد کم۔
تیسرے نمبر پر سنٹر پارٹی تھی (یہ روایتی طور پر کسانوں کی جماعت ہے)۔ 28 نشستیں اور 13.6 فیصد ووٹ کے ساتھ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوسری مرتبہ اتنی اچھی کارکردگی تھی۔ پچھلے انتخابات کے مقابلے پر جس پارٹی کے ووٹ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا وہ یہی پارٹی تھی۔
تارکین وطن کی مخالف سمجھی جانے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ایف آر پی کو 21 نشستیں ملی ہیں۔ اس کی نشستوں میں کمی آئی ہے۔ بہر حال یہ جماعت چوتھے نمبر پر رہی۔
7.5 فیصد ووٹ لینے والی لیفٹ سوشلسٹ پارٹی نے 13 سیٹیں جیتی ہیں۔ اس کے ووٹ میں بھی اضافہ ہوا۔ اس جماعت کے رہنما آدن لسباکن (Audun Lysbakken) کا کہناہے: ”ہم لیفٹ گرین حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ ہماری جدوجہد ہے کہ لوگوں کے مابین تفریق کا خاتمہ ہو اور ہم ماحولیات کے لئے کام کریں گے۔ ہم مخلوط حکومت کا حصہ ضرور بننا چاہتے ہیں مگر ہمارے لئے سیاست ہی فیصلہ کن محرک ہے“۔
اس کے بعد ریڈ پارٹی کا نمبر آتا ہے جس نے 8 نشستیں حاصل کیں۔ اس جماعت کے 39 سالہ کرشماتی رہنما بیورنار ایدے موکسنیس (Bjornar Eide Moxnes) کا کہنا ہے کہ اس الیکشن کا مطلب ہونا چاہئے کہ اب نیو لبرلزم کا خاتمہ قریب ہے۔
دائیں بازو کی جماعت لیفٹ (V) کو بھی 8 نشستیں ملی ہیں۔ کرسچین پیپلز پارٹی چار فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکی۔ اس کا مطلب ہے کہ پچھلی پارلیمنٹ میں ان کو حاصل 5 نشستیں ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔
ان انتخابات کا تجزیہ کرنے کے لئے ’جدوجہد‘ نے ٹونی عثمان سے انٹرویو کیا۔ ٹونی عثمان اوسلو میں مقیم ترقی پسند کارکن، فلم میکر اور معروف اداکار ہیں۔
جدوجہد: گذشتہ حکومت اور دایاں بازو یہ الیکشن کیوں ہار گئے؟
ٹونی عثمان: اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اؤل: لیبر پارٹی نے دو ٹوک انداز میں یہ پیغام دیا کہ وہ لیفٹ گرین حکومت بنانے کے لئے الیکشن لڑ رہے ہیں جس کیو جہ سے وہ ووٹر جو دائیں بازو کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے متحرک ہو گئے۔ دوم: گذشتہ حکومت نے کچھ ٹیکس اصلاحات کیں جس کا فائدہ بڑے سرمایہ دار کو تو ہوا مگر عام مزدور کو البتہ اس کی وجہ سے دشواری ہوئی۔ سوم: لیبر پارٹی نے کھل کر عام آدمی اور مزدور کی فلاح و بہبود کی بات کی۔
کچھ مبصرین تو یہاں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بڑے عرصے کے بعد، پھر سے لیبر پارٹی ایک مرتبہ پھر لیبر کی پارٹی بننے جا رہی ہے۔
جدوجہد: لیفٹ بلاک کا ووٹ بڑھا ہے مگر اس بلاک میں سب سے زیادہ ووٹ کس جماعت کا بڑھا؟
ٹونی عثمان: سب سے زیادہ فائدہ تو سنٹر پارٹی کو ہوا۔یہ ویسے تو سنٹرسٹ رجحان رکھتی ہے مگر چند سالوں سے یہ لیفٹ کے زیادہ قریب ہے۔ ان کی مقبولیت میں 3.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لیبر پارٹی نے سنٹر پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کا اعلان کر رکھا تھا جس کا فائدہ اس جماعت کو ہوا۔
ادہر اگر لیبر پارٹی کی سو سالہ تاریخ کو مد نظر رکھا جائے تو یہ نتایج بہت اچھے تو نہیں ہیں لیکن پچھلے تقریباً دس سال میں اس کی مقبولیت کافی کم ہوئی۔ اس پس منظر میں یہ نتایج بہت خوش آئند ہیں۔
جدوجہد: سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کیوں مقبول ہوئی۔ کیا اس کا پروگرام بہت ریڈیکل ہے یا یہ کہ لوگ اب رائٹ ونگ حکومت سے تنگ آ چکے تھے اور تبدیلی برائے تبدیلی چاہتے تھے؟
ٹونی عثمان: جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ لیبر پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں کھل کر عام آدمی کی فلاح بہبود کی بات کی۔ پھر یہ کہ انہوں نے سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔ اس کا مطلب ووٹرز نے یہ لیا کہ لیبر پارٹی لیفٹ کی طرف جا رہی ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگ تبدیلی بھی چاہتے تھے۔
جدوجہد: 47 فیصد نشستیں خواتین کو ملی ہیں؟ اس پر ذرا روشنی ڈالیں کیونکہ پورے سکینڈے نیویا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ خواتین سربراہ حکومت یا پارلیمنٹ میں نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ کیا یہ سکینڈے نیوین رجحان ہے یا کچھ خاص نارویجن پس منظر بھی ہے؟
ٹونی عثمان: اس کا کریڈٹ سارے معاشرے کو دیا جا سکتا ہے۔ سب سیاسی جماعتیں اس معاملے میں ایک ہی سوچ رکھتی یں۔ ہاں ایف آر پی، جو انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے اس معاملے میں ایک استثنا ہے۔ ویسے دیگر رائٹ ونگ جماعتیں بھی عورت کی نمائندگی کے سوال پر بائیں بازو سے متفق ہیں۔ ریڈ پارٹی کو آٹھ نشستیں ملی ہیں، ان میں سے پانچ خواتین ہیں۔ سوشلسٹ جماعت کی تیرہ نشستوں میں سے آٹھ خواتین کو ملی ہیں۔ کنزرویٹو جماعت، جو پہلے حکومت میں تھی، ان کی بھی چھتیس میں سے انیس نشستوں پرخواتین جیت کر آئی ہیں۔
ایف آر پی کو اکیس نشستیں ملی ہیں جس میں صرف تین خواتین ہیں۔ اتفاق سے اس جماعت کی رہنما ایک عورت ہے مگر پھر بھی یہ جماعت خواتین کو ریکروٹ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جدوجہد: ریڈ پارٹی کی کامیابی کا تجزیہ کیسے کریں گے؟
ٹونی عثمان: کمیونسٹ پارٹی یعنی ریڈ پارٹی 2007ء میں بنی تھی۔ اس لحاظ سے یہ ایک نئی پارٹی ہے جبکہ اس کا رہنما بھی ایک نوجوان ہے جس کی عمر 39 سال ہے۔ اس رہنما کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جو لوگ اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے وہ بھی اسے پسند کرتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں وہ ان کے ساتھ ان کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اس کا فائدہ پارٹی کو بھی ہوتا ہے۔ یہ پارٹی بات کرتی ہے ناروے کی ناٹو کی رکنیت ختم کرنے کی، یہ جمہوری انقلاب کی بات کرتے ہیں، غیر طبقاتی سماج کی بات کرتے ہیں، اس کے علاوہ یہ امریکی سامراج کے خلاف بھی بولتے ہیں۔
حال ہی میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس جماعت نے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر افغان عوام سے یکجہتی کے لئے مظاہرہ بھی کیا۔ اس کی مقبولیت نوجوانوں اور خواتین میں زیادہ ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس جماعت کے آگے بڑھنے سے یہاں کی سیاست پر دور رس اثرات ہوں گے۔ ایک اہم نتیجہ یہ نکلے گا کہ لیبر پارٹی مجبور ہو گی کہ زیادہ لیفٹ ونگ پروگرام اپنائے۔
جدوجہد: ناروے میں ایک بڑی پاکستانی کمیونٹی بھی ہے۔ کوئی اس حوالے سے اس الیکشن کی اہم بات؟
ٹونی عثمان: تارکین وطن کے حوالے سے ایک اہم اور دلچسپ بات پاکستانی نژاد سیاستدان ہادیہ تاجک کو ملنے والی وزارت بھی ہو گی۔ ہادیہ تاجک کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ مستقبل میں ناروے کی پہلی ایسی وزیر اعظم ہوں گی جن کا پس منظر غیر ملکی ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ناروے ابھی اتنا بالغ نہیں ہوا کہ ایسی وزیر اعظم کو ہضم کر سکے مگر آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ میں اول اول اوبامہ بارے بھی یہی کہا جاتا تھا۔
اب اگر تو اکتوبر میں بننے والی نئی حکومت میں ہادیہ تاجک کو کوئی اہم وزارت ملی تو یہ اس بات کا اشارہ ہو گا کہ لیبر پارٹی کی قیادت تیار ہے کہ ہادیہ جیسی بیک گراونڈ رکھنے والی سیاستدان کو وزارت عظمی کا منصب دیا جائے۔
جدوجہد: امیگریشن کی مخالفت کرنے والے ایف آر پی کیوں غیر مقبول ہوئی؟
ٹونی عثمان: یہ جماعت بڑھک بازی کر نے والی جماعت ہے۔ اس کا موازنہ ہم اس پی ٹی آئی سے کر سکتے ہیں جس نے دھرنا دیا تھا۔ یہ جماعت اپوزیشن میں رہتے ہوئے بڑھک بازی سے، حکومت کو گالیاں دے کر، بڑے بڑے وعدے کر کے اپنی مقبولیت برقرا رکھ سکتی ہے مگر جب یہ حکومت میں ہو تو کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا پاتی۔
آٹھ سال پہلے یہ پہلی بار حکومت کا حصہ بنی۔ اس سے پہلے ان کا امیج یہ تھا کہ یہ بہت مضبوط اپوزیشن پارٹی ہے جو کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ آٹھ سال پہلے جب حکومت کا حصہ بنی تو اپنے ووٹرز کے ساتھ کئے گئے کسی بھی وعدے کو پورا نہ کر سکی۔
پچھلے سال انہوں نے ایک چالاکی یہ کی کہ جنوری میں حکومت سے علیحدہ ہو گئے تا کہ اب جو الیکشن ہوئے ہیں ان میں یہ بطور اپوزیشن جماعت کے سامنے آ ئیں۔ اس بار لیکن ان کے ووٹر ان کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بنے۔
جہاں تک تعلق ہے اینٹی امیگرنٹ سیاست کا تو لگتا ہے کہ رائے دہندگان اب اس نعرے سے زیادہ متاثر نہیں ہو رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چار سال بعد کیا ہو گا۔ اس جماعت کی سوچ کافی فسطائی ہے۔ اب نئی حکومت نے اگر کوئی جامع اقدامات نہ کئے تو اس صورت میں یہ جماعت بھر پور طاقت کے ساتھ واپس بھی آ سکتی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔