نقطہ نظر

بھائی ناتھ کی اسلامائزیشن

فاروق سلہریا

ضلع نارووال کی تحصیل ظفر وال سے دو کلومیٹر شمال کی جانب میں میرا گاؤں چھنی واقع ہے۔ سوائے اس کے کہ یہ گاؤں بہت خوبصورت تھا (جسے اب مضافاتی سرمایہ داری (Periphery Capitalism) نے گندگی اور ڈی ڈویلپمنٹ کا نمونہ بنا دیا ہے) اس گاؤں میں شائد کوئی انوکھی یا ایسی خاص بات نہ تھی جس کے سبب اس بارے کوئی اس پر کبھی کوئی توجہ دیتا۔

جس طرح ہر کسی کو اپنے ماں باپ اچھے لگتے ہیں، اس طرح ہر گاؤں کے باسیوں کو اپنا گاؤں بہت پیارا لگتا ہے۔ ہمیں بھی ہے لیکن غم روزگار ہمیں در بدر لئے پھرتا ہے۔ گاؤں کے اکثر مرد حضرات روزگار کی تلاش میں خلیج سے یورپ تک پہنچ جاتے ہیں۔

کیا ہے کہ گاؤں چھوڑ بھی دو، گاؤں اپنے باسیوں کو نہیں چھوڑتا۔

گذشتہ ہفتے کے روز، اٹھارہ سال بعد، گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ سب ہی کچھ بدل گیا تھا۔ سو سوا سو کچے پکے گھروندوں والا گاؤں پانچ سو سے زیادہ گھروں پر مبنی جنگل میں بدل چکا ہے۔ کھیت رئیل اسٹیٹ میں بدل گئے ہیں۔ صاف ستھری گلیاں بدبودار ٹوٹی پھوٹی سڑکوں میں بدل گئی ہیں۔ نہ یہ شہر رہاہے نہ گاؤں۔ پاکستانی سرمایہ داری کی طرح، کوئی بیچ کی چیز۔ پاکستانی سرمایہ داری میں یورپی سرمایہ داری سے وابستہ کوئی اچھی چیز تو نہیں پنپ سکی، مگر سرمایہ داری کی سب خباثتیں ضرور موجود ہیں۔

’ترقی‘ کے نام پر یہی حال میرے گاؤں کا ہوا ہے۔

ایک تبدیلی جس پر میں ہنسا بھی اور سٹپٹایا بھی، وہ تھی بھائی ناتھ کی اسلامائزیشن۔ بھائی ناتھ اب ’بابا لطیف شاہ سرکار‘ بن چکا ہے۔

ہمارے کھیتوں کے کنارے سبز رنگ والی، درختوں میں ڈھکی، یہ قبر مجھے بچپن سے ہی بہت پر اسرار مگر پر سکون لگتی تھی۔ اسے بھائی ناتھ کی ’جگہ‘ بولا جاتا تھا۔

میرے دادا جو پیر پرستوں، قبر پرستوں کا ہمیشہ مذاق اڑاتے، کا خیال تھا کہ اس قبر میں کوئی بھی نہیں۔ ”بھلا ہندؤوں کی بھی کوئی قبر ہوتی ہے“ وہ سٹپٹا کر کہتے۔ گاؤں کی خواتین پر ان کے استدلال کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ منت مانگنے یا منت پوری ہونے پر خواتین یہاں میٹھی روٹی بانٹتیں۔

کھیتوں میں گھومتے ہوئے جوں ہی میری نظر بھائی ناتھ پر پڑی، میں سیدھا پہنچ گیا۔

میری اس لمبی غیر حاضری کے دوران قبر پر ایک تختی جانے کب آویزاں ہوئی، میرے ہمراہ گھومتے ہوئے میرے نوجوان چچا زاد بھائی کو کم از کم علم نہیں تھا۔

تختی پر کیا لکھا ہے، گاؤں والوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس جگہ کو آج بھی بھائی ناتھ ہی کہا جاتا ہے مگر کسے معلوم ایک دن تختی والا نام ہی زبان زد عام ہو جائے اور بلاسفیمی کے ڈر سے بھائی ناتھ کی قبر پر کسی کو میرے دادا کی طرح یہ تمسخر اڑانے کا موقع ہی نہ ملے کہ اس قبر میں کوئی ہے ہی نہیں، بھلا ہندؤوں کی بھی قبر ہوتی ہے؟

اب تو اپنے گاؤں میں اس سے بھی ڈر لگتا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔