حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کیلئے 100 کنال ریزرو جنگل کی کمرشل اراضی 2 لاکھ روپے میں الاٹ کر دی گئی ہے۔ اراضی کی الاٹمنٹ کیلئے محکمہ جنگلات کے شدید تحفظات کو نظر انداز کیا گیا ہے اورمحکمہ جنگلات سے این او سی حاصل کئے بغیر یہ اراضی الاٹ کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب تعمیر شدہ مکانات کی الاٹمنٹ کیلئے وصول کی گئی درخواستوں کے ساتھ تاحال وزارت امور کشمیر کے دعوؤں کے مطابق 2 ارب 25 کروڑ روپے کی رقم وصول کی جا چکی ہے۔
راولاکوٹ ٹاؤن ایریا میں شہر کے اطراف 3 سے 4 کلومیٹر کی حدود میں لب روڈ فی مرلہ اراضی کی اوسط قیمت 4 سے 5 لاکھ روپے فی مرلہ ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کیلئے الاٹ کی گئی یہ اراضی راولاکوٹ شہر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر سڑک کے ساتھ منسلک ہے۔
محکمہ جنگلات نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ اراضی پر قیمتی شاہی درخت موجود ہیں۔ پاکستان میں جنگل کا رقبہ پہلے ہی بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے۔ راولاکوٹ شہر کے نواح میں جنگل کی اراضی کو تعمیراتی مقاصد کیلئے استعمال میں لانے کے سنگین ماحولیاتی اثرات مرتب ہونگے۔ فاریسٹ ایکٹ 2017ء کے مطابق جنگل کا رقبہ صرف قومی مقاصد کیلئے متبادل اراضی فراہم کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔
محکمہ جنگلات نے اپنے تحفظات میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’پاکستان بین الاقوامی معاہدات کا ’Signatory‘ ہے اور ایسے اقدامات حکومت پاکستان کیلئے بھی نہ صرف بدنامی کا باعث ہونگے بلکہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی ساکھ بھی شدید متاثر ہو گی۔‘
نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ ’رقبہ زیر بحث اندرون شہر ہونے کے باعث کمرشل رقبہ ہے۔ جو اس وقت محکمہ جنگلات نے کمیونٹی فاریسٹ کے طور پر ریزرو کر رکھا ہے، جس کی قیمت خالصہ سرکار ظاہر کرتے ہوئے تقریباً 2 ہزار روپے فی کنال تعین کی گئی ہے، جو انتہائی کم ہے اور بادی النظر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالکان کو مالی فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔‘
بورڈ آف ریونیو نے دو الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے راولاکوٹ کے موضع پڑاٹ اور سدھنوتی کے موضع پلندری سے اراضی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کیلئے الاٹ کی ہے۔ ستمبر 2020ء کو جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق پلندری میں الاٹ کی گئی 70 کنال 7 مرلے سرکاری اراضی (خالصہ سرکار) خسرہ نمبر 2179 فی کنال 2 ہزار روپے کے حساب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے سلسلہ میں منظور کی گئی ہے، جبکہ راولاکوٹ موضع پڑاٹ میں خسرہ نمبر 556 سے 37 کنال 2 مرلے اراضی خالصہ سرکار 2 ہزار روپے فی کنال کے حساب سے منظور کی گئی ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات نے بعد ازاں خالصہ سرکار ظاہر کر کے منظور کی گئی 37 کنال 2 مرلے اراضی پر اپنا دعویٰ ظاہر کرتے ہوئے نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔
اپریل 2021ء کو موضع پڑاٹ میں ہی خسرہ نمبر 556 سے 62 کنال 18 مرلے مزید اراضی 2 ہزار روپے فی کنال کے حساب سے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلئے منظور کی گئی ہے، جبکہ اس کے متبادل کے طور پر محکمہ جنگلات کو تحصیل ہجیرہ کے ایک دور دراز علاقے کھڑانج میں اراضی منتقل کرنے کی منظوری دی گئی۔ کھڑانج کے سیاسی حلقوں کے اعتراضات کے بعد تحصیل تھوراڑ کے ایک دور دراز علاقے بوسہ گلہ سے محکمہ جنگلات کو متبادل اراضی منتقل کرنے کی منظوری دی گئی۔ تاہم بوسہ گلہ میں بھی محکمہ جنگلات نے تاحال اس اراضی کا قبضہ حاصل نہیں کیا۔
محکمہ مال کے اپنے ریکارڈ کے مطابق بھی موضع پڑاٹ کے خسرہ نمبر 556 کی 319 کنال 10 مرلے اراضی محکمہ جنگلات کے زیر قبضہ ریزرو جنگل کی اراضی ہے۔ تاہم بورڈ آف ریونیو نے مبینہ جعل سازی کے ذریعے سے 37 کنال 2 مرلے اراضی کو خالصہ سرکار ظاہر کر کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کو الاٹ کی گئی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت نے پاکستان کی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) کے تعاون سے سرکاری ملازمین، عام شہریوں اور بیرون ریاست سرکاری ملازمین کیلئے یہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ منصوبہ بھی پاکستان کے مختلف صوبوں میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی طرح پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کی بنیاد پر ہی شروع کیا گیا ہے۔
اس منصوبے کی نگرانی ایف جی ای ایچ اے ہی کر رہا ہے، جبکہ پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر کا محکمہ فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ (پی پی ایچ) اس کا انتظام و انصرام دیکھ رہا ہے۔ تاہم پی پی ایچ سمیت کوئی بھی محکمہ یا ذمہ دار اس منصوبے کی تفصیلات فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔
ابھی تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں راولاکوٹ کے موضع پڑاٹ اور ضلع سدھنوتی کے موضع پلندری میں یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی جائیں گی۔ ان سوسائٹیوں میں فی کس 100 فلیٹس اور 5 مرلہ کے مکانات تعمیر کئے جائیں گے۔
ایف جی ای ایچ اے کی جانب سے متعین راولاکوٹ کے پراجیکٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقبول احمد گوندل نے بتایا ہے کہ موضع پڑاٹ میں 100 کنال اراضی ہے، جس پر 100 مکانات تعمیر کئے جائیں گے، جن میں فلیٹس اور 5 مرلہ کے مکانات شامل ہونگے۔
انکا کہنا تھا کہ ان مکانات میں سے 40 پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین، 40 عام شہریوں اور 10 بیرون ریاست کام کرنے والے سرکاری ملازمین کیلئے مختص ہونگے، جو جمع ہونے والے درخواستوں میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے انہیں دیئے جائیں گے۔
ایف جی ای ایچ اے اور پی پی ایچ کی جانب سے جاری کردہ اشتہار کے مطابق 5 مرلہ گھروں کے علاوہ ٹائپ سی اور ٹائپ ڈی فلیٹس تعمیر کئے جائیں گے۔ درخواستوں کے ساتھ 25 ہزار روپے فیس جمع کروانے ضروری ہوگی اور ٹائپ سی فلیٹ کی قیمت 53 لاکھ روپے، ٹائپ ڈی فلیٹ کی قیمت 43 لاکھ روپے، جبکہ 5 مرلہ مکان کی قیمت 45 لاکھ روپے ہو گی، تینوں طرز کے مکانات دو بیڈ روم، لاؤنج، کچن اور دو واش رومز پر مبنی ہونگے۔
سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق 50 فیصد مکانات مقامی حکومت کے سرکاری ملازمین، 40 فیصد عام شہریوں اور 10 فیصد وفاقی اور صوبائی محکموں میں کام کرنے والے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ملازمین کیلئے کو الاٹ کئے جائیں گے۔
’دی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے وزارت امور کشمیر کے عہدیدار نے بتایا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلئے 90 ہزار افراد کی درخواست موصول ہوئی ہیں۔ یہ گفتگو انہوں نے اپریل 2019ء میں کی تھی۔ تاہم نومبر 2020ء تک درخواستیں وصول کی جا رہی تھیں، آخری تاریخ تک جمع ہونے والی مجموعی درخواستوں کی تفصیلات سرکاری سطح سے فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
2019ء میں فراہم کردہ اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو درخواستوں کے ہمراہ وصول کی گئی مجموعی رقم 2 ارب 25 کروڑ روپے بنتی ہے۔
نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا۔ حکومت زمین کی فراہمی اور نگرانی کے اقدامات کرے گی، جبکہ سرمایہ کاروں کو 3 لاکھ روپے فی مکان کی سبسڈی کے علاوہ ٹیکس چھوٹ بھی دی جائے گی۔ بینک سرمایہ کاروں کو قرضہ فراہم کرینگے اور مکانات جن افراد کو الاٹ کئے جائیں گے وہ آسان اقساط میں مکانات کی قیمت ادا کرینگے۔
ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر ہیں۔ پالیسی بورڈ ممبران میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری فنانس ڈویژن، سیکرٹری وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس، سیکرٹری پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز، اظہار یعقوب (پرائیویٹ سیکٹر)، ضیغم محمود رضوی (پرائیویٹ سیکٹر)، سردار جاوید اشرف خان (پرائیویٹ سیکٹر)، شیخ محمد عمران (پرائیویٹ سیکٹر) اور میجر جنرل (ر) عامر اسلم خان شامل ہیں۔
اس پروگرام کے تھینک ٹینک کے ممبران میں بھی تمام پراپرٹی اور بزنس ٹائیکون شامل کئے گئے ہیں، جن میں شوکت ترین، ضیغم محمود رضوی، محسن شیخانی، حسن بخشی، عارف حبیب، عقیل کریم ڈیڈی، ارشد داد خان، آصف رضا ثنا، مدثر حسین خان، محمد عارف چنگیزی، حفیظ بسم اللہ گروپ اور مشرف زیدی شامل ہیں۔
راولاکوٹ میں زیر تعمیر نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کی اراضی 2 لاکھ روپے میں حاصل کی گئی ہے۔ منصوبہ کا ٹینڈر نوٹس اور تعمیراتی کمپنی کو منصوبہ سونپے جانے کی دستاویزات کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ ایف جی ای ایچ اے کی ویب سائٹ پر ٹینڈر نوٹس اپ لوڈ تو کیا گیا، تاہم بعد ازاں اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا، جس کا لنک ویب سائٹ پر ابھی تک موجود ہے۔
منصوبہ پر کام شروع کرنے کے وقت اہل علاقہ نے روکنے کی کوشش کی، جس پر انتظامیہ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پراجیکٹ نے اہل علاقہ کو یہ جھانسہ دیا کہ انہیں نہ صرف مکانات اور پلاٹ فراہم کئے جائیں گے بلکہ واٹر سپلائی سکیم، کھیل کے میدان، پارک، سکول اور سڑک کی اپ گریڈیشن بھی کی جائیگی۔ محکمہ جنگلات نے بھی تعمیراتی کام رکوانے کیلئے انتظامیہ کو درخواستیں دیں، تاہم انہیں رد کر دیا گیا۔
اے ڈی مقبول گوندل کے مطابق تعمیراتی کام ’ایچ آر کے‘ نامی کمپنی کر رہی ہے، جو اسلام آباد کی کمپنی ہے۔ تاہم اسلام آباد میں ایسی کوئی کمپنی انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ پراجیکٹ سندھ کی ایک کمپنی کو دیا گیا، جس نے آگے کسی غیر معروف ٹھیکیدار کو ’سب لیٹ‘کر رکھا ہے۔
منصوبہ سے متعلق کوئی دیگر تفصیل نہ تو ویب سائٹوں پر فراہم کی گئی ہے، نہ ہی کوئی اس بابت تفصیلات فراہم کی جا رہی ہے۔ پی پی ایچ کے مطابق مقامی حکومت سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا، اور نہ ہی ان کے پاس کوئی دستاویزات ہیں۔ محکمہ تعمیرات عامہ عمارات راولاکوٹ نے بھی اس منصوبہ کی معلومات کی بابت لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پونچھ بدر منیر کا کہنا تھا کہ اراضی کی فراہمی بورڈ آف ریونیو اور محکمہ مال کی ذمہ داری تھی۔ بورڈ آف ریونیو کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہم نے اراضی کی نشاندہی کر کے متعلقہ حکام کے حوالے کر دی ہے۔ منصوبہ سے متعلق دیگر معلومات پی پی ایچ ہی فراہم کر سکتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے پاس اس منصوبہ سے متعلق اراضی کے نوٹیفکیشن کے علاوہ کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔
جنگل کی اراضی تعمیراتی منصوبہ کیلئے الاٹ کرنے سے متعلق سوال کرنے پر انکا کہنا تھا کہ یہ حکومت کا معاملہ ہے، حکومت نے جنگلات کے قوانین کو ’اوور رول‘ کر کے اراضی کی الاٹمنٹ کی منظوری دی ہے۔ محکمہ جنگلات کو متبادل اراضی فراہم کر دی گئی ہے۔ تاہم درختوں کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن میں پی پی ایچ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ درختوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ درختوں کو نقصان پہنچائے بغیر جنگل کی اراضی پر ہاؤسنگ سکیم کیسے تعمیر ہو گی۔
مقامی شہریوں نے اس منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے اور اس منصوبے کو روکنے کیلئے قانونی چارہ جوئی سمیت احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک جانب ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات پر عالمی سطح پر امداد حاصل کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے، جبکہ دوسری جانب جنگلات کی اراضی کو کوڑیوں کے دام پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر کیلئے فروخت کیا جا رہا ہے۔
ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ جنگل کی اراضی کو بچانے کیلئے حکومت کی متعین کردہ رقم سے 5 گنا زائد رقم مقامی کمیونٹی سرکاری خزانے میں جمع کروانے کو تیار ہے۔ غریبوں کو مکان دینے کے نام پر پراپرٹی مافیا کو مالی فائدے پہنچانے کے اس منصوبے کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور لوگوں کی جمع شدہ رقوم واپس کی جائیں۔ اگر ہاؤسنگ منصوبہ تعمیر کرنا ناگزیر ہے تو اسے کسی متبادل جگہ پر پرائیویٹ اراضی یا پھر سرکاری اراضی پر تعمیر کیا جائے۔