شاعری

تین نسلوں کا سانجھا دکھ عشرت آفرین کے شعری آئینے میں!

قیصر عباس

”دراصل اس کی شاعری کی روح اس کا ذاتی تجربہ ہے اور یہ تجربہ معاشرے کی حقیقت بھی ہے اور اس کے دل کی آواز بھی۔ وہ جس شکست خوردہ اور زوال آمادہ فیوڈل سماج سے نکل کر آئی ہے وہ اس کا پس منظر ہے اور جس تاجرانہ اور جابرانہ عہد سے گزررہی ہے وہ اس کاحال ہے اور اس کے خوبصورت خواب اس کا مستقبل اور اس خواب میں اس کی ذات شامل تھی“ (علی سردار جعفری، 1985ء)

یہاں علی سردار جعفری جس شاعرہ کی بات کر رہے ہیں ان کانام ہے عشرت آفرین۔ بر صغیرمیں وہ صف اؤل کی شاعرہ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں جن کے موضوعات کا دائرہ سماجی عدم مساوات سے عورت کے دکھوں تک پھیلا ہواہے۔

اکیسویں صدی میں جہاں عورت کے خلاف سماجی ناانصافیاں موجود ہیں وہاں عورت کے مسائل پر علمی اور ادبی سطح پر کھل کر بات بھی ہو رہی ہے۔ اردو شاعری میں کئی شاعرات نے اس سلوک کے خلاف آواز بلند کی ہے جن میں عشرت آفرین ایک الگ لہجے کے ساتھ شامل ہیں۔ عشرت اب پاکستان سے نقل مکانی کرکے امریکہ میں مقیم ہیں اور اردو شاعرات کی صف میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن کے فلیگ شپ اردو ہندی پروگرام میں جزوقتی طور پر اردو ادب پڑھا تی رہی ہیں۔ اب تک ان کے تین مجموعے، ”کنج پیلے پھولوں کا“، ”دھوپ اپنے حصے کی“ اور ”دیاجلاتی شام“ شائع ہو چکے ہیں اور’زرد پتوں کا بن‘ کے عنوان سے کلیات بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس عہد کے ترقی پسند موضوعات اور صنفی جبر پر نظم اور غزل لکھنے کا ہنرانہیں خوب آتا ہے۔

ہمارے پدر سری معاشرے میں ناقدین عموما ًشعرا حضرات اور شاعرات کو الگ الگ خانوں تقسیم کردیتے ہیں اور شاعرات کویہ کہہ کر کنارے لگادیاجاتا ہے کہ ”شاعرات میں“ انہیں اہم مقام حاصل ہے، لیکن معیار کے لحاظ سے عشرت آفرین کی شاعری کو کسی صنفی دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں وہ خاتون ہونے کی حیثیت سے اپنے تجربات کو جس سچائی اور فنی مہارت کے ساتھ بیان کرتی ہیں وہ ان ہی کا حصہ ہے جو مرد کبھی بیان نہیں کر سکتے۔

آئیے ان کی شاعری میں صنفی احتجاج کا جائزہ لینے سے پہلے جنوبی ایشیا اور پاکستان میں نسائی تحریک اور صنفی مسائل کا جائزہ لیتے چلیں۔

پدر سری نظام کے خلاف نسائی آوازیں

پاکستانی سماج کی بنیاد جنوبی ایشیا کے ان تاریخی ور ثوں پر رکھی گئی ہے جن میں ”باعزت عورت“ وہی ہے جومرد کے زیر سایہ گھر کی چار دیواری میں زندگی بسر کرے اور اس کے حکم کی پاسداری کرے۔ اگرچہ یہ سماجی ڈھانچے بتدریج بکھر رہے ہیں لیکن عورتوں کا سماجی، اقتصادی اور قانونی استحصال شہری اور دیہی دونوں معاشروں میں جاری ہے۔ عورت کے خلاف قانونی قدغنیں، حقوق ملکیت سے انکار،غیرت کے نام پر قتل، بلا اجرت مزدوری، محنت کش عورتوں کے آلام اورجنسی استحصال اگر دیہی علاقوں میں جاگیردارانہ نظام کا حصہ ہیں تو یہی ناانصافیاں شہروں میں بھی سماجی روایتوں کے نام پر عورتوں کے حقوق سلب کر رہی ہیں۔

ہمارا قانونی ڈھانچہ پدرسری نظام کا ایک استحصالی بازو ہے جس کے ذریعے عورت کے حقوق کی خلاف ورزی کو قانونی تحفظ دیاجاتا ہے۔ اگرچہ آئینی طور پر عورت کووہی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو ہیں لیکن قانونی موشگافیوں کے ذریعے صنفی ناانصافیوں کو نافذ کرکے پدرسری روایات کو مستحکم کیا گیا۔ عدالتی شہادتوں کے قانون کے تحت مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر تسلیم کی جاتی ہے۔ ریپ کے مقدمات میں چار مردوں کی گواہی لازم ہے جو بذات خود جنسی زیادتی کے چشم دید گواہ ہوں۔ دیت کے قانون کے مطابق عورت کے قتل کا معاوضہ مردکے مقابلے میں نصف قراردیا گیا ہے (فوزیہ رفیق 1987ء)۔ اس پدرسری نظام نے عورت کو دوسرے درجے کی شہری بننے پر مجبور کر دیا ہے۔

سماجی سطح پر بھی عورت کی حیثیت کو خاندانی روایتوں اور مالی ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ طلاق کے قوانین کے تحت اگرچہ عورت کو علیحدگی کے حقوق حاصل ہیں مگراس کے لئے اسے جان لیوا خاندانی اور سماجی مخالفت سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی دوسری شادی اور کبھی زمین کی وراثت سے عورتوں کو خارج کرنے کے لئے غیرت کے نام پر تشدد اور قتل کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف عورت کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے وہاں جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر اسے ایک ایسی ”بکاؤجنس“ سمجھا جاتا ہے جوزمین کی طرح مرد کی ملکیت ہے اور اس کی مرضی کی تابع ہے۔

لیکن ان تمام ناانصافیوں کے خلاف احتجاجی آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور نسائی تحریکیں نہ صرف مغربی بلکہ مشرقی معاشروں میں بھی سر اٹھارہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق پر کئی کتابوں کی مصنفہ عافیہ ضیا نے اپنی تصنیف ’Faith and Feminism in Pakistan‘ میں نسائی تحریکوں کو ارتقاکے تین مرحلوں میں بیان کیا ہے (عافیہ ضیا2018ء)۔ پہلے مرحلے میں ستر اور اسی کی دہا ئیوں میں عورتوں کے حقوق کو مغربی دنیا اور امریکہ میں دانشوارانہ بحث کے ذریعے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا۔ اس بحث سے برصغیر نے بہت کچھ سیکھا لیکن اسے سیا سی جدوجہد کا حصہ بنانے میں کئی سا ل لگ گئے۔ دوسرے مرحلے میں برصغیر میں آزادی کے بعد عورتوں کے مسائل کو سماجی اور علمی بحث میں شامل کیاگیا جن کا لب لباب یہ تھا کہ آزادی کے تصور میں عورت کے مسائل اور ان کے حل کو مکمل طورپرنظر انداز کیا گیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک کے بعد ایک آنے والی آمرانہ حکومتوں نے عورتوں کے مسائل کو اور بھی سنگین شکل دے دی۔ مثلاًملک کے بدترین آمر جنرل ضیا الحق نے دیت، ریپ اور دوسرے قوانین تشکیل دے کر ان ناانصافیوں پر مہر ثبت کردی جو اب تک مٹائی نہیں جاسکی۔ نسوانی تحریک کی تیسری لہر سیکولرزم اور جدیدیت کے زیر سایہ عورتوں کے حقوق کو میڈیا اور علمی بحث میں شامل کر رہی ہے۔

یہ اسی کا اثر ہے کہ پاکستان میں، جہاں ایک زمانے میں عورتوں کے حقوق کا تذکرہ تک ممکن نہیں تھا،عورت مارچ، خواتین کے حقوق پردانشورانہ تصانیف اور عورتوں کے خلاف جرائم پر احتجاجی سرگرمیاں اب زندگی کا حصہ بن گئی ہیں۔

مغربی ممالک اور امریکہ میں نسوانی تحریکوں کے مطالبات ایک عرصے تک تنقیدکا نشانہ بنتے رہے جس کے بعد اب ان کے حقوق عوامی احتجاج، دانشورانہ تجزیوں اور میڈیا کی سطحوں پر تسلیم کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان میں جہاں میڈیا پر بحثوں میں خواتین سے بدسلوکی اور گالم گلوج عام ہے، انہیں ایک طرف جاگیردارانہ جبروردوسری طرف قدامت پسند حلقوں کے تعصب کاسامنا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں نسائی حقوق کی تحریک ایک اہم مزاحمتی دور سے گزر رہی ہے۔

نسوانی تحریک کے اس مرحلے تک پہنچنے میں ان تحریکوں کا اہم کردار ہے جو مختلف ادوار میں جاری رہیں۔ 1949ء ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن اس سلسلے کی اولین کوشش تھی جو مارکسسٹ نظریات پرکام کرتی رہی۔ آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (APWA) نے بھی عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھائی اگرچہ کچھ مبصرین کے مطابق زیادہ تر سرکاری ملازمین اور سیاسی لیڈروں کی بیگمات پر مشتمل یہ غیر سرکاری تنظیم ریاستی حکمت عملی کی حمایت کے لئے بنائی گئی تھی۔

1981ء میں بننے والی تنظیم ویمنز ایکشن فورم نے جنرل ضیا کے اقدامات کو چیلنج کیا جو ایک ملک گیر تحریک بن گئی۔ ان کے علاوہ شرکت گاہ، عورت، یونائٹڈ فرنٹ فار ویمن، سندھیانی تحریک اور پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کی ویمنز فرنٹ کی تحریکیں بھی عورتوں کے حقوق کی موثر آواز بن کر ابھریں۔ مسائل کا تجزیہ، منصوبہ بندی اور احتجاج کا یہ عمل جاری ہے لیکن ایک مربوط حکمت عملی کا متقاضی ہے جس کی جڑیں تاریخی اور سماجی ڈھانچے میں مضبوط کی جائیں۔

اردو شاعری میں بھی ان مسائل کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ بازگشت کبھی دبی آواز میں مرد کے جابرانہ رویوں پر شکوہ کناں ہے تو کبھی پورے گھن گرج کے ساتھ انہیں چیلنج کر رہی ہے۔ ادا جعفری نے پہلی بار صنفی مسائل کواپنے کلام میں شامل کیا اور زہرہ نگاہ نے کھل کر معاشرے میں صنفی امتیاز اورپدرسری رویوں پر قلم اٹھاکر نسوانی مسائل کی غزل کے پیرائے میں بات کی۔ ستر اور اسی کی دہائیوں میں نسائی حقوق کی آ وازیں کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کی احتجاجی شاعری میں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ عشرت آفرین، شاہدہ حسن، منصورہ احمد، نسرین انجم بھٹی، تنویر انجم، عذرا عباس، زاہدہ حنا اور نسیم سید نے مرد کے جابرانہ رویوں پراحتجاج جاری رکھا۔ ان کے علاوہ پروین سید فنا، پروین شاکر، فاطمہ حسن اور دوسری شاعرات نے بھی صنفی مسائل کو مختلف انداز میں اپنے کلام کا حصہ بنایا۔

عشرت آفرین کی شاعری میں تین نسلوں کا صنفی دکھ

ہیلن ونڈلر len Wendler) (He اپنی تصنیف ’PoetsThinking‘ میں انگریزی زبان کے چار شعرا کے کلام کاتجزیہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کی ہر نظم اپنی ساخت میں اس کی تشریح کے اصول و ضوابط بھی واضع کردیتی ہے جن کے تحت یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اس کے معنی کن خطوط پر اخذ کئے جائیں۔ کلام میں پوشیدہ ان تشریحی نکات کے ذریعے نہ صرف تخلیق کے محدودصوتی زاویوں بلکہ لامحدود فلسفیانہ موشگافیوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے Wendler,1998,p.5) (Helen۔

اسی تصنیف میں مصنفہ نے ایملی ڈکنسن (Emily Dickinson) کی شاعر ی پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا: ”میرے نزدیک شاعرہ نے جس طرح وقت کے تصور کو اپنا مطمع نظر واضح کرنے کے لئے استعمال کیا اس کاتذکرہ بہت ضروری ہے“ (Halen Vendler,p.64)۔

عشرت آفرین کی شعری تخلیقات کا تجزیہ بھی ان کے سیاق و سباق کا احاطہ کرتے ہوئے اور بدلتے وقت کے ساتھ شاعرانہ تصور کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقالے میں ہم ان کی شاعری میں تین نسلوں تک پھیلے نسائی دکھوں اور ان کے تصوروقت کی تکنیک پر بھی نظر ڈالیں گے۔

عشرت آفرین کا لہجہ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کی طرح احتجاجی تو نہیں مگر غزل اور نظم دونوں میں انہوں نے دھیمے انداز میں صنفی مزاحمت کرتے ہوئے مرد کے رویوں کو بھرپور انداز میں چیلنج کیا۔ ان کے کے کلام کی خاص بات یہ ہے کہ صنفی امتیاز صرف ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ اس کا پھیلاؤ کئی نسلوں تک ہے جسے انہوں نے تین نسلوں کے نسائی دکھ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ پہلی نسل میں ان کی ماں کے تمام رنج والم شامل ہیں، دوسری نسل میں وہ خود اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں صنفی عدم مساوات پر نگاہ ڈالتی ہیں۔ تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ان کی بیٹی کے رنج والم ان کے غموں میں تبدیل ہو جاتے لیکن ان کی نوعیت نئے وقت اور ماحول میں قدرے مختلف ہے۔

تین نسلوں تک پھیلا ہوا نسائی دکھوں کایہ سفر ان کی ماں کے عہد سے شروع ہوتاہے۔ یہاں ایک بیٹی کی زبان سے نکلے حروف اگر چہ پہلی نسل کی زندگی کا پورا نقشہ تو نہیں کھینچتے مگر عشرت کا کلام جگہ جگہ ان کی والدہ پر گزرے صنفی دکھوں کی تصویر ضرور کھینچتاہے۔

ہماے یہاں بیٹیوں سے ناروا سلوک ان کی پیدائش سے شروع ہو جاتاہے، ان کو بار بار یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ پرایا دھن ہیں جب کہ بیٹوں کو باپ کاوارث کہہ کر تمام آسائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ عشرت اس حقیقت کا اظہار اپنے رفیق حیات سے کرتے ہوئے اس سماجی دوغلے پن کی یاد دلاتی ہیں:

ایک نے بیٹی ایک نے بیٹا جنم دیا
کتنا فرق ہے ہم دونوں کی ماؤں میں

لیکن وہ یہ بھی یاددلانا چاہتی ہیں کہ خودداری او رانا ان کی ماں کا ورثہ ہے اور اسی سے ان کے فن کو جلا ملتی ہے:

مری انا مرا معیار فن نہ ہو کیونکر
یہ فن ملا ہے وراثت میں اپنی ماں سے مجھے

شاعرہ کے نزدیک ہر نئی نسل سماجی طورپر اپنی پہلی پیڑی سے زیادہ باشعورہوتی ہے اور ہر بیٹی اپنی ماں کی صعوبتوں کو پہچاننے اور ان کے حل کے لئے عملی طورپر آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ چھوٹی سی نظم ان کے پہلے مجموعے کا انتساب بھی ہے اور ان کے کلام کی پہچان بھی بن چکی ہے۔

میرا قد
میرے باپ سے بھی اونچا نکلا
اور مری ماں جیت گئی

معاشرہ مغربی ہو یا مشرقی، عورت کے حقوق ہر جگہ پامال ہوتے ہیں بس ان کی عملی صورت بدل جاتی ہے۔ اگر مغربی معاشرے میں یہ سلوک قانونی دائروں میں رہ کر عورت کے استحصال کو کم اجرت اور جنسی ہراسانی کی صورت میں جاری رکھتا ہے تو ہمارے معاشرے میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر یہ مزید جابرانہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شاعرہ کے نزدیک بیٹیوں کو یہ سلوک ان زیورات کی طرح منتقل ہوتا ہے جنہیں مائیں برسوں سنبھا ل کر رکھتی ہیں اور یہ کہہ کر ان کے سپرد کرتی ہیں کہ یہ پرکھوں کی وراثت ہے:

لڑکیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیں
تن صحرا اور آنکھ سمندر کیوں رکھتی ہیں
عورتیں اپنے دکھ کی وراثت کس کو دیں گی
صندوقوں میں بند یہ زیور کیوں رکھتی ہیں
صبح وصال کی کرنیں ہم سے پوچھ رہی ہیں
راتیں اپنے ہاتھ میں خنجر کیوں رکھتی ہیں

دوسری نسل تک پہنچ کر بیٹی کی محرومیوں کا سفر اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ”میرے پرکھوں کی پہلی دعا“ کے عنوان سے یہ نظم عورت کی پیدائش پر اس کی پہلی سانس میں گھولا گیا زہریلا پن آنے والے دنوں کے اندیشوں کی نشاندہی کر رہا ہے:

آہٹوں سرگوشیوں میں کسی نے کہا
آہ لڑکی ہے یہ
اتنی افسردہ آواز میرے خدا
میری پہلی سماعت پہ لکھی گئی
میری پہلی ہی سانسوں گھولا گیا
ان شکستہ لہجوں کا زہریلا پن

اس طرح ماں کے عہد سے بیٹی کے دور تک یہ جبر جاری رہتا ہے۔ وہی لڑکی کچھ بڑی ہوتی ہے تو بچپن کی یادیں اس کے شعور کا حصہ بن کر اس کے ساتھ رہنے لگتی ہیں اور اس کی نفسیاتی الجھنوں کا پرتو بن جاتی ہیں:

میں اپنی گلیوں کی دھول میں کھیل کر بڑھی ہوں
میں خواب کی عمر میں بھی حالات سے لڑی ہوں
میں اپنے آباکی قبر پر کھلنے والی وہ خوشنما کلی ہوں
جو اپنے ہونے کے جرم میں ہر سزا ہنس ہنس کے کاٹتی ہے

جوانی کی منزلوں سے گزرتے ہوئے اسی لڑکی کو اب ایک نئے دور سے گزرنا ہے۔ سماجی روایتوں کے سہارے اسے کسی اور کے پلو سے باندھ دیا جاتا ہے جس میں اس کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہاں معاشرے کی بے رحم روایات کے تحت زندگی گزارنے والی عورتیں اور ہم جولیوں کی کہانیاں کلام کا محور ہیں۔ جاگیرداری نظام میں عورت بھی زمین کی طرح خاندانی ملکیت کا حصہ ہوتی ہے جسے خاندان ہی میں ہی بیاہنے کی کوشش کی جاتی ہے:

حویلی کے مکیں تو چاہتے تھے
کہ گھر ہی میں رہے یہ گھر کی لڑکی

یوں ہاتھوں پر لگی مہندی دلہن کی امنگوں کا لہو بن کر ہتھیلی پر رقص کرنے لگتی ہے:

سب لکیروں سے لہو رستا ہے
یوں ہتھیلی پہ حنا رقص میں ہے

شادی کے بعد اکثر سہاگ کی دعائیں چوڑیوں کے پسے ہوئے ریزے بن کردلہن کا آخری گھونٹ بھی بن جاتی ہیں:

جنہیں کہ عمر بھرسہاگ کی دعائیں دی گئیں
سناہے اپنی چوڑیاں ہی پیس کر وہ پی گئیں
بہت ہے یہ روایتوں کا زہر ساری عمر کو
جو تلخیاں ہمارے آنچلوں میں باندھ دی گئیں
سروں کا یہ لگان اب کے فصل کون لے گیا
یہ کس کی کھیتیاں تھیں اور کس کوسونپ دی گئیں

اب یہ حال ہے کہ اندر کی تاریکی کو مصنوعی قہقہوں کے سہارے چھپانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے، آبائی گھر ایک سنسان آسیب زدہ حویلی میں تبدیل ہوچکا ہے اور لڑکی وہیں کہیں اپنے سپنے رکھ کر بھول گئی ہے:

اندر سے ٹوٹی پھوٹی ہوں
اوپر سے ہنس بول رہی ہوں
ایک آسیبوں والے گھر میں
سپنے رکھ کر بھول گئی ہوں

نصرت زہرہ ان کی شاعری پر کچھ اس طرح تبصرہ کرتی ہیں ”عشرت نے اپنے دھیمے لہجے میں بھی ظلم کے خلاف ایک مزاحمتی آواز کا کردار ادا کیا ہے۔ خاتون ہونے کے ناطے انہوں نے اس معاشرے کے دل میں چھپے ہوئے عناد کی نشاندہی کی ہے جو پہلے تو اس طائر خوں بستہ کو چاروں جانب سے باندھ دیتا ہے پھر اس کے پر کھینچتا ہے اور اس ظلم پرلطف اندوز بھی ہوتاہے“ (نصرت زہرہ، 2023ء)۔ عشرت کی شاعری معاشرے میں صنفی جبرکے خلاف ایک پراثر آواز ہے جو نسائی تحریک کی دوسری صداؤں کے ساتھ مل کر احتجاجی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔

معاشرے میں عورت کے مقدر اور اس کے ساتھ نسل در نسل سفر کرنے والے دکھوں نے عورت کی زندگی کو روایتوں کی قتل گاہ بنا دیا ہے اور لڑکیاں وقت کی صلیب پر قربان کردی جاتی ہیں:

روایتوں کی قتل گاہ عشق میں
یہ لڑکیاں صلیب ہوکے رہ گئیں

ن۔م راشد کی مشہور نظم ”حسن کوزہ گر“ ایک تخلیق کار کی داستان ہے جس میں وہ ایک حسینہ جہاں زاد کے عشق میں اپنے پیشے، شریک حیات سوختہ بخت اور بچوں کو بھلا کر نو سال تک دنیا کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔ عشرت نے اپنی نظم ”جہاں زاد“ میں اسی داستان کو ایک عورت کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ شاعرہ کے خیال میں کوزہ گر کی آپ بیتی مرد کی زبان میں اس کے عشق کی داستان ہے لیکن اس کہانی میں دو عوتوں، جہاں زاد اور سوختہ بخت پر گرزنے والی صعوبتوں کا ذکر نہیں ہے۔ عشرت جب اسی داستان کو صنفی حوالے سے بیان کرتی ہیں تو لگتا ہے کہ حسن کا جنون ان دو عورتوں کے رنج وآلام کے مقابلے میں کتنے معمولی تھا۔

اے حسن کاش تو جان سکتا
کہ اس صحن خانہ سے دہلیز تک کے سفر میں
جہاں زاد کو کیوں زمانے لگے ہیں
حسن اس سفر میں جہاں زاد کو ایک اک گام پر
وقت کے تازیانے لگے ہیں

جس سماج میں عورت گھر کی چاردیواری میں مکمل طورپر مرد پر انحصار کرتی ہو، اگر مرد کسی اور کے عشق میں گھر اور پیشے کوبھی خیر باد کہہ دے تو اس کے خاندان پر کیا گرزتی ہو گی؟

وہی سوختہ بخت تیری
کہ جو جاں فشانی کے شعلوں سے دہکے ہوئے
زندگی کے ابد تاب تنور پر
انگلیاں تیرے بچوں کی تھامے کھڑی
بھوک سے برسر جنگ تھی

تین نسلوں کے اس سفر کا اختتام شاعرہ کی بیٹی کے المیوں پر ہوتاہے جہاں اس کی خواہش ہے کہ ماں کے دکھ اس کی اپنی بیٹی کے حصے میں نہ آئیں:

کیا لازم ہے یہ پونجی میں بیٹی کو بھی دوں
جو دکھ مجھے ملے تھے اپنی ماں سے ورثے میں

تین مختلف زمانوں اور ماحول کی عکاسی کرتا ہوا یہ سفر زمان و مکان کی سیڑھیا ں طے کرتاہوا ایک اجنبی سرزمین تک پہنچ کر بیٹی کے دکھوں کی تصویر بن جاتا ہے، لیکن یہاں تک پہنچ کر بھی صنفی المیوں کی کہانی جاری رہتی ہے۔ اس نظم میں بیٹی کو شکایت ہے کہ ماں اس کے مقابلے میں بھائی کو کیوں اہمیت دیتی ہے:

تجھے مجھ سے شکایت ہے
کہ میں نے پیار کی تقسیم میں تفریق برتی ہے
کھلونے اور آنسو کا جو بٹوارا ہوا اکثر
ترے حصے میں آنسو آئے ہیں پیاری

تجھے یہ جان کر حیرت تو ہو گی
مرے حصے کا اکثر تر نوالہ بھائیوں کو ملا کرتا
مگر ماں سے کوئی کیسے گلہ کرتا
مری جاں رزق کی تقسیم میں
تفریق کا قانون تو صدیوں پرانا ہے
وراثت بانٹنے والوں نے جو بھی فیصلہ لکھا
اسے ہم نے بجا سمجھا بجا لکھا

لیکن ماں کو یہ یقین بھی ہے کہ اس کی بیٹی کی نسل میں دکھوں کی نگری کا یہ سفر ختم نہیں تو کم ضرور ہو گا اس امید کے ساتھ کہ ’اس کی بیٹی کی نسل میں کسی کویہ شکوہ نہیں ہو گا۔

عشرت کی نظم ”مرا درد نہ جانے کوئی“ ان ہی نسلی روایتوں کا تذکرہ ہے۔ یہاں شاعرہ اپنے سے پہلی اور بعد کی نسل کی رو ا یتوں سے نبھاہ کرتی ہوئی خود نفیساتی الجھنوں میں گرفتار نظر آتی ہے:

ایک طرف بیٹی ہے میری
ایک طرف میری ماں
دونوں مجھ کو عقل بتاتی رہتی ہیں
باری باری سبق پڑھاتی رہتی ہیں
دونسلوں کے بیچ کھڑی
میں خود پر ہنستی رہتی ہوں
اپنی گرہیں آپ ہی کستی رہتی ہوں
میرے دونوں ہاتھ بندھے
”مرا درد نہ جانے کوئی“

زمانے کی بدلتی ہوئی اقدار میں عورت کی زندگی جن محرومیوں اور اذیتوں سے گزرتی ہے ان کا احساس عشرت آفرین نے اپنی اس مختصر نظم ”تیسری نسل“ میں پیش کیا:

مری ماں مجھ سے کہتی تھی
ڈوپٹہ ٹھیک سے اوڑھو
ذرا جھک کر چلو بیٹی
کوئی آداب محفل کا سلیقہ ہی نہیں تم کو
اور اب میں اپنی بیٹی سے یہ کہتی ہوں
مری بچی
ذرا سا ڈھنگ کے کپڑے نکالو
وہاں پر جاننے والا بھی مل سکتا ہے کوئی

عشرت آفرین نے اپنامدعابیان کرنے کے لئے وقت کی بدلتے ہوئے مناظر کو ایک ماہر اسکرپٹ رائٹر کی طرح استعمال کیا ہے، لیکن یہ مناظرایملی ڈکنسن کی طرح ایک ڈور میں پروئے نہیں گئے بلکہ یہاں شاعرہ نے زمان و مکان کے تین دائروں کو الگ الگ رنگوں میں رنگ کر یہ ثابت کیا ہے کہ صنفی امتیاز اگرچہ ہر دور میں میں ہوتا ہے مگر اپنے ماحول کے تقاضوں میں ڈھل کر اس کی ہیت بدلتی رہتی ہے۔ عورتوں کے کچھ رنج والم ان کو ورثے میں ملتے ہیں جن میں نئے سماج کے نئے دکھ بھی شامل کردئے جاتے ہیں۔

اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے وہ اپنی ماں کے دکھوں کو فراموش نہیں کرتیں۔ یہاں وقت بر صغیر کی آزادی سے پہلے کا ہے اور ماحول یوپی کے ایک قصبے کا لیکن نسائی دکھوں کی روایات وہی ہیں جو پہلے تھیں او رآئندہ بھی جاری رہیں گی۔ وقت پھر انگڑائی لیتا ہے تو آزادی کے بعد کراچی کی ایک مضافاتی بستی کا منظر سامنے آتاہے اور شاعرہ کی ابتدائی زندگی اب بدلتے ہوئے وقت کا مرکزی نقطہ بن جاتی ہے۔ یہاں زندگی برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے مگرشاعرہ کی نظر عورت پر ہونے والے جبر کے زاویوں سے نہیں ہٹتی اگرچہ وہ اپنے ماحول کی سیاسی اور سماجی تلخیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتی۔

بدلتے ہوئے وقت کا تیسرا پڑاؤ ایک بار پھرقاری کو ایک نئی سرزمین اور نئے ماحول میں لے جا رہا ہے۔ شاعرہ اب امریکی شہری ہے اور دکھوں کی یہ کتھا اس کی بیٹی کی کہانی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مشرق سے آئی ہوئی عورت ایک مغربی ماحول میں آتی ہے تو اسے امید ہے کہ یہاں اس کی بیٹی کو ان دکھوں سے نجات ملے گی جو اس کی ماں سے اسے ورثے میں ملے تھے۔ مگر اس ماحول میں بھی صنفی المیوں کی داستان ختم نہیں ہوتی، ہاں شاعرہ کو یہ امید ضرور ہے کی اس کی بیٹی کی آنے والی نسل کے دکھوں میں کمی ضرور آئے گی اور ان کی شدت وہ نہیں ہو گی جس سے اس کی ماں اور وہ خود گزری ہے۔

وقت کا یہ تصو ر عشرت کے یہاں پردہ سیمیں پر چلنے والی فلم یا ٹی وی سیریز کی طرح مسلسل نہیں بلکہ قسطوں میں بٹی مختلف کہانیوں کے انداز میں ہے۔ یہ کہانیاں ان کے کلام میں مربوط طور پر نہیں بلکہ جگہ جگہ ابھرتی نظر آتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہیں پھر کوئی اور موضوع ان کے کلام کا محور بن جاتا ہے۔ زندگی کی اسکرین پر پھر پھیلے ان شہ پاروں کو شاعرہ نے تین نسلوں پر محیط عورت کے ساتھ ناانصافیوں اور جبر کی ڈورسے باندھا ہے۔ بھیانک صنفی رویوں کو طشت ازبام کرنے کی یہ انوکھی تکنیک اردو شاعری کے افق پر صرف عشرت آفرین کے تخلیقات میں ہی نظر آتی ہے۔

عورتوں کے دکھ صرف شاعرہ کی ذا ت تک محدود نہیں بلکہ غریب، محنت کش اوردیہاتی عورتوں کے دکھ بھی کلام کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی نظم ”زہر“ ایک ایسی ہی عورت کے دکھوں بھری زندگی کا عکس ہے جو کنوئیں سے پانی بھرکر لاتی ہے مگر پھر بھی مرد کے پیر دھونے کے لئے پانی کم پڑ جاتا ہے۔ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری کرتی ہے مگر پھر بھی بھوکی رہتی ہے:

کنوئیں کی چکنی سرخ منڈیر سے
رسی کھینچتے کھینچتے اس کے بازو شل ہوجاتے تھے
مرد کے پاؤں دھونے کوپانی پھر بھی ناکافی ہوجاتا تھا
ڈلیا بنتے بنتے اس کے ہاتھ لہوسے بھر جاتے تھے
پھر بھی روٹی پورے پیٹ نہ ملتی تھی

تاریخ شاہد ہے کہ عورت کو ہمیشہ جنگی ہتھیارکے طورپر استعمال کیا جاتا رہاہے، یہ کبھی دشمن کے مال غنیمت میں شامل ہوتی ہے اور کبھی دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لئے ذلت کا نشان بنائی جاتی ہے۔ عشرت نے حالت جنگ میں عورت کے جنسی استحصال کو موضوع سخن بناتے ہوئے اسے جھاڑیوں کے درمیان ایک پھٹے پرانے ڈوپٹے سے تشبیہ دی ہے:

ریور، لڑکی،جھاڑی بیچ
پھٹا ڈوپٹّہ باقی ہے

نسائی دکھ عشرت کی شاعری کا سب سے اہم پہلو ضرور ہے لیکن وہ ارد گرد ہونے والی سماجی تبدیلیوں سے بے خبر نہیں کہ ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ سماج میں پھیلی وحشت اور دہشت کی مزاحمت بھی لئے ہوئے ہے۔ ان کی ایک خوبصورت غزل کے یہ تین اشعارمعروضی حقیقتو ں کا عکس بن کر بڑھتی ہوئی سماجی بے چینی اور دہشت گردی کے خاتمے کے ملتجی ہیں:

سائیں میرے کھیتوں پر بھی رُت ہریالی بھیجو ناں
سکھی پرندوں کی چہکاریں گیتوں والی بھیجو ناں
ایک ایک کرکے پنچھی اڑتے جائیں ٹھور ٹھکانوں سے
بھوک اڑے کھلیانوں میں رُت باجرے والی بھیجوناں
سائیں رات کے رات یہ بستی مقتل کیوں بن جاتی ہے
اب جس رات بھی خنجر نکلیں آندھی کالی بھیجو ناں

افضال احمد سید نے گزشتہ ایک صدی کے دوران شاعرات کے نسائی شعورکے بارے میں سوال کیا تھا:

”آج شاعرات کی نئی نسل کو پڑھ کر ہمارے ذہنوں میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں، کیاان سو برسوں میں عورت نے اپنی منزل کو پالیا؟ کیا اس کے قدم منزل کے قریب تک پہنچے؟ کیا پدر سری نظام کا مستحکم جبر کمزور پڑا؟ یقیناہمارے معاشرے میں عورت کا مقام اور صنفی مساوات کے تصور میں تبدیلی تو آئی ہے جس کا ثبوت نسائی شعور سے لبریز ہماری نوجوان شاعرات کی قوت اظہار اور قارئین میں اس نوع کی شاعری کی قبولیت ہے“(فاطمہ حسن، 2022ء، ص (16-15۔

عشرت آفرین اور ان جیسی دوسری شاعرات نے عورت کے دکھوں کو علمی اور دانشورانہ بحث کا حصہ بنا کرسماج میں نسائی حقو ق کا شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھا یاہے۔ یہی شعور آنے والے دنوں میں صنفی مساوات کے حصول کی منزل بھی بن سکتا ہے کہ وہ مستقبل سے ناامید نہیں:

کر رکھی ہے آنے والے دنوں کے نام
رت ہریالی میں نے اپنے حصے کی

کتابیات اور حوالے

عشرت آفرین ((2017 ”کلیّات، زرد پتوں کا بن“ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
ؑعلی سردار جعفری (1985ء) ”عشرت آفریں کی شاعری، دیباچہ، کنج پیلے پھیلوں کا“ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
فاطمہ حسن(2022ء)”اردوشاعرات اور نسائی شعور: سو برس کا سفر 2020-1920ء“ انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی۔

نصرت زہرہ (2023) ”عشرت آفرین“ اردو منزل ویب سائٹ http://www.urdumanzil.com/adab_nama/ishratafreen/index.html
Fauzia Rafiq.(1987).”Women’s movement and religion in the Third World.” Pakistan Progressive, Volume 8, No.3, Winter.
Afiya S. Zia. (2018).”Faith and Feminism in Pakistan: Religious Agency or Secular Autonomy?” Lahore: Folio Books.
Helen Vendler. (1998). "Poets Thinking, Pope, Whitman, Dickenson, Yeats.” Cambridge, Massachusetts: Harvard University Press.

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔