شاعری

غیر روایتی رشتوں کا شاعر، افتخار نسیم اِفتی!

قیصر عباس

ایک زمانے میں لاہور کے ادبی حلقوں میں ایک نئے شاعر کا تعارف ہو اجس کا یہ شعرہر ایک کی زبان پر تھا:

اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو

اس شعر کے خالق افتخار نسیم تھے جو اس دور میں احمد ندیم قاسمی کے ادبی جریدے ’فنون‘ کے ذریعے اپنے چونکا دینے والے لہجے کے ساتھ خود کو منوارہے تھے۔ افتخار نسیم (2011-1942ء) کا تعلق فیصل آباد سے تھا جنہیں ان کے احباب اِفتی کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ ایک روایتی قدامت پسند سماج نے ان کے ہم جنس پرستانہ طرز زندگی کو قبول کرنے سے انکار کیا اوراس طرح وہ شروع ہی سے لوگوں کے تعصبانہ رویوں کا شکار رہے۔ اپنے ہی شہرنے جب ان پر قبولیت کے تمام دروازے بند کیے تو انہوں نے وطن سے دور امریکہ میں سکونت اختیا رکی۔

امریکہ نقل مکانی کے بعدسے اپنے انتقال تک وہ شکاگو کی ادبی، ثقافتی سرگرمیوں کی جان اور ملک کی سماجی تحریکوں میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے سرکردہ لیڈر اور کارکن سمجھے جاتے تھے۔ ان کی نظم ’ایک مختلف کہانی‘ شایدان کی اپنی زندگی کی داستان سنا رہی ہے:

جولی کتنی بھولی تھی
جب اس نے اظہار کیاتھا
اپنے اندر کی خواہش کا
اس چھوٹے سے شہر کے
سارے لوگوں نے اس پر تھوکا تھا
چرچ کے فادر نے
اس کو
انجیل مقدس کے ورقوں سے پڑھ کر سنایا
عورت نسل انسانی کی خاطر دنیا میں آئی ہے
اس کے اندر کی خواہش تو ایک گنہ ہے
یہ تو کافی سال پرانا قصہ ہے
اب جولی تو بہت بڑے اک شہر کے اندر رہتی
کبھی کبھار اسے جب
اس چھوٹے قصبے کی یاد ستاتی ہے تو
کسی بھی قبرستان میں جا کر
انجانی قبروں پر
پھول چڑھا کر
گھر کو واپس آ جاتی ہے

افتی کی غزل انسانی رشتوں کو مذہب، نسل اور زبان کی سرحدوں سے دور لے جاکرقاری کوساختیاتی تر تیب اور تخیل کے نئے زاویوں سے روشناس کرتی ہے۔ اِفتی کی دوست اور شاعرہ نوشی گیلانی امریکہ میں افتی کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں کہتی ہیں:

”اِفتی نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران تخلیقی سطح پر بھی فکروبیاں کے کئی تجربے کئے۔ ناول، افسانہ، انگریزی نظم اور دیگر اصناف کو بڑی خوبی سے برتااگرچہ اردو غزل، جو افتی کا خاصہ ہے اس کی مہم جو فطرت کی وجہ سے کسی حد تک نظر انداز ہوئی۔“

دوستوں کے حلقے میں اِفتی اپنے بے باکانہ تبصروں، لطیفوں، بذلہ سنجی اور محفل آرائیوں کے لئے مشہور تھے۔ وہ کبھی اپنے طرز زندگی پر معذرت خواہ نہیں رہے جس کااظہار ان کے کلام میں بھی ہے اور امریکہ آ کر تو وہ اپنی کمیونٹی کے حقوق کی جدوجہد کے جانے پہچانے لیڈر بن گئے تھے۔

مندرجہ بالا مطلع کی پوری غزل افتی کی زبان میں ایک انوکھے لہجے کی ترجمانی کر رہی ہے:

اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو

بھولنے پائے نہ اس دشت کی وحشت دل سے
شہر کے بیچ رہو، باغ میں آہو رکھو

خشک ہو جائے گی روتے ہوئے صحرا کی طرح
کچھ بچا کر بھی تو اس آنکھ میں آنسو رکھو

روشنی ہو گی تو آ جائے گا رہرو دل کا
اس کی یادوں کے دیے طاق میں ہر سو رکھو

یاد آئے گی تمہاری ہی سفر میں ا س کو
اس کے رومال میں اک اچھی سی خوشبو رکھو

اب وہ محبوب نہیں اپنا، مگر دوست تو ہے
اُس سے یہ ایک تعلق ہی بہر سو رکھو

افتی کے پانچ شعری مجموعے، غزال، مختلف، ایک تھی لڑکی، نرمان اور آبدوز شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ ایک ناول شبرّی اور کالموں کے دو مجموعے افتی نامہ اور افتی نامہ 2 بھی چھپ چکے ہیں۔ افتی کے کچھ اور چونکا دینے والے اشعار دیکھئے تو ان کے ذہن رسا کی وسعت خیال اور بھی نکھر کر سامنے آ جاتی ہے:

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں

کھولتا ہوں یاد کا در اسم اعظم پھونک کر
اس کھنڈر میں جانے اب کتنی بلائیں رہ گئیں

کٹی ہے عمر کسی آبدوز کشتی میں
سفر تمام ہوا اور کچھ نہیں دیکھا

کھِلے گا اک گلِ خورشید دن کو
ستارے شب میں بوتا جارہا ہوں

صغرا صدف کی نظر میں اِفتی کی انسان دوستی انہیں صوفیانہ صفتوں سے قریب تر کردیتی ہے:

”افتخار نسیم ایک صوفی ہے کہ خدمت خلق جس کا وطیرہ ہے۔ وہ ہر مذہب، قوم اور فرقے کے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ ان کے دکھ درد دور کرنے کے لئے عملی تگ ودو کرتا ہے۔ ان کی خیر کے لئے صرف دعا گو نہیں ہے بلکہ ان کی بھلائی کے لئے عملی اقدامات کرتا ہے۔“

افتی کی شاعری کا کینوس ان کی اپنی ذات کی سرحدوں سے باہر نکل کر انسانیت کے آفاقی دائروں کو محیط کرتاہے:

جو خدا پر نہیں انسان پہ رکھتا ہے یقیں
دل کو اچھا لگااس شخص کا کافر ہونا

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔