لاہور (جدوجہد رپورٹ) اسلام آباد میں رات ایک بجے پولیس نے بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال، جس کی وجہ سے متعدد زخمی ہوگئے۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے موجود مظاہرین اور اسلام آباد کے داخلی راستے پر موجود لانگ مارچ کے شرکاء میں سے درجنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں لانگ مارچ کی رہنما ماہرنگ بلوچ سمیت متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں بدھ کی شام جب لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد داخل ہو رہے تھے،تو اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری نے انہیں روک دیا اور ان کی گاڑیوں کی چابیاں چھین لیں۔ اسلام آباد پولیس نے انہیں کہا کہ وہ پارک میں جا سکتے ہیں لیکن انہیں اسلام آباد نہیں جانے دیا جائے گا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ سکیورٹی وجوہات کی بناء پر انہیں یہ اجازت نہیں دی جا سکتی۔
تاہم مہرنگ بلوچ اور دیگررہنماؤں نے پولیس کی یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اسلام آبادپریس کلب کے سامنے پہلے سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین دھرنے میں موجود ہیں۔ ہم ہر صورت میں ان کے ساتھ دھرنے میں ہی شریک ہونگے۔ انہوں نے پھر اعلان کیا کہ وہ پر امن طریقے سے اپنی آواز حکام تک پہنچانے کیلئے آئے ہیں۔ پر امن احتجاج انکا بنیادی آئینی حق ہے اور ان کے آئینی حقوق کو غصب نہ کیاجائے۔
رات گئے تک پولیس کی بھاری نفری قیدی وینوں کے ہمراہ پریس کلب کے باہر اور اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب موجود تھیں۔
دریں اثناء لانگ مارچ کے شرکاء جب بدھ کی صبح ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے تو پی ٹی ایم رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کی قیادت میں پشتون اور بلوچ شہریوں کی کثیر تعداد نے لانگ مارچ کے شرکاء کا استقبال کیا۔ ڈی آئی خان میں جلسہ عام کا بھی انعقاد کیا گیا۔ پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین بھی اس احتجاج اور استقبال میں شریک ہوئے اور انہوں نے مہرنگ بلوچ کو پشتین کیپ بھی پہنائی۔ ڈی آئی خان میں جلسہ کے انعقاد کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء گاڑیوں کے قافلے میں اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے۔