پاکستان

جموں کشمیر: 17 سیاحتی مقامات کی 880 کنال سے زائد اراضی عسکری کمپنی کو لیز پر دینے کی تیاریاں

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے محکمہ سیاحت و اثار قدیمہ کی جانب سے قانونی اور آئینی رکاوٹوں کے باعث انکار کرنے کے بعد مقامی حکومت نے پاکستان کی سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل(ایس آئی ایف سی) کے زیر سایہ قائم ہونے والی عسکری کمپنی ‘گرین ٹورازم’ کو 880کنال سیاحتی اور جنگلات کی اراضی اور 4ریزارٹس لیز پر دینے کیلئے ٹورازم پروموشن ایکٹ اور ٹورازم ایگزیکٹو کمیٹی کے قوانین میں نرمی یا ترمیم کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر رکھی ہے۔

تمام سیاحتی مقامات لیز پر گرین ٹورازم کمپنی کے حوالے کرنے کیلئے کسی قسم کی مسابقتی بولی کا انعقاد نہیں ہوگا،کمپنی کو ہر طرح کے ٹیکسوں سے استثنیٰ ہوگا، کمپنی کے پاس موجود منصوبوں پر کوئی حکومتی قانون لاگو نہیں ہوگا اورحکومت کمپنی کو بجلی، پانی، روڈ انفراسٹرکچر سمیت دیگر سہولیات مفت فراہم کرے گی۔ جنگلات کی کٹائی، پتھروں اور معدنیات وغیرہ کا استعمال بھی کمپنی مفت میں کر سکے گی۔ کسی بھی اختلاف یا قانونی پیچیدگی کی صورت میں ثالثی کیلئے جموں کشمیر کی عدالتیں مقدمہ سننے کی مجاز نہیں ہونگی۔ راولپنڈی کی عدالت میں ہی مقدمات کی سماعت کی جا سکے گی۔

ایس آئی ایف سی اور گرین ٹورازم کمپنی

ایس آئی ایف سی کا قیام جون2023میں عمل میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کو ون ونڈو سہولیات فراہم کرنا تھا۔ کونسل کے 5ویں اجلاس منعقدہ4ستمبر2023میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہاسپیٹیلٹی سے متعلق منصوبوں کی نشاندہی کی جائے گی۔ پاکستان کے سابق نگران وفاقی وزیر سیاحت بیرسٹر شاہ جمال کاکا خیل کے مطابق گرین ٹورازم کمپنی کی مالک فوج ہے اور یہ ایس آئی ایف سی کی زیر سرپرستی کام کرے گی۔ یہ کمپنی رواں سال 26جنوری کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں رجسٹرڈ کروائی گئی ہے۔ اس کمپنی کے صدر دفتر ‘رومی ہاؤس، اولڈ ایئرپورٹ روڈ راولپنڈی’ کے علاوہ اور کوئی تفصیل، ویب سائٹ وغیرہ ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔ تاہم پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے زیر اہتمام پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں چلنے والے 84ریزارٹس اور سیاحتی مقامات لیز پر اس کمپنی کے حوالے کئے جانے کا فیصلہ نگران حکومت میں ہی کر لیا گیا تھا۔

سیاحتی مقامات اور انفراسٹرکچر کو لیز پرلینے کیلئے نشاندہی پہلے ہی کر دی گئی تھی، جبکہ کمپنی بعد میں قائم کی گئی۔ جموں کشمیر میں بھی تمام سیاحتی مقامات کی نشاندہی پہلے ہی عسکری حکام کی جانب سے کر دی گئی تھی، جس کی تصدیق چیف سیکرٹری ، محکمہ سیاحت اور گرین ٹورازم کی خط و کتابت کے ذریعے بھی ہو رہی ہے۔

جموں کشمیر میں مقامات کی نشاندہی اور مجوزہ معاہدہ

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 14فروری کو گرین ٹورازم کی جانب سے چیف سیکرٹری کے نام ایک مکتوب لکھا گیا، جس میں بتایا گیا کہ یہ کمپنی حکومت کی ملکیتی کمپنی ہے اور ایس آئی ایف سی کے زیر سایہ کام کرتے ہوئے سیاحت کے انفراسٹرکچر کو ترقی دے گی۔ اسی مکتوب میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سے اس کمپنی کو 84ریزارٹس اور سیاحتی مقامات کی زمینیں لیز پر دی جا رہی ہیں۔

مکتوب کے مطابق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیراعظم اور جی او سی45انجینئرنگ ڈویژن کی ملاقات میں محکمہ سیاحت کی 6اور محکمہ جنگلات کی 11سائٹس کی زمینوں اور ریزارٹس کی نشاندہی کی گئی، جو زیادہ تر غیر فعال یا خستہ حالی کا شکار ہیں۔

اس مکتوب کے ساتھ ایک مجوزہ معاہدہ بھی ارسال کیا گیا، جو کمپنی کی پاکستان میں رجسٹریشن سے قبل ہی 21جنوری2024کو تحریر کر دیا گیا تھا۔ جموں کشمیر کی حکومت کی جانب سے معاہدہ کرنے والے محکمہ یا ادارے سمیت دیگر ضروری جگہیں چھوڑی گئی ہیں، باقی تمام شرائط و ضوابط تحریر کی گئی ہیں۔ 23صفحات پر مشتمل اس معاہدے میں پراجیکٹ سائٹس بھی شامل کی جانی ہیں، جو شیڈول ون کے طور پر شامل کی جائیں گی۔

مجوزہ معاہدہ کے مطابق یہ سیاحتی مراکز 30سال کیلئے کمپنی کو لیز پر دیئے جائیں گے، جبکہ 10سال تک لیز میں توسیع بھی کی جا سکے گی۔ تاہم رعایتی مدت 4سال ہوگی۔

20فیصد منافع جموں کشمیر میں ٹورازم کی ترقی کیلئے مختص کیا جائے گا۔ باقی بچنے والے 80فیصد منافع میں سے 30فیصد جموں کشمیرکی حکومت اور 70فیصد ایس پی وی سی (گرین ٹورازم) کو ملے گا۔

پارٹیز معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ(انفرادی یا فرم) کا تقرر بطور پراجیکٹ آڈیٹر کریں گی، تاکہ اکاؤنٹس بحال کئے جا سکیں اور سالانہ آڈٹ کروایا جا سکے۔
گرین ٹورازم کو حق حاصل ہوگا کہ وہ پراجیکٹ کو تحویل میں لے، ڈیزان کرے، چلائے اور اس کی ترویج کرے۔

سیاحتی اراضی اور جنگلات کی اراضی کے معاہدے الگ الگ کئے جائیں گے ،تاکہ سیاحتی مراکز کی حوالگی میں تاخیر سے بچا جا سکے۔

گرین ٹورازم کمپنی ان زمینوں کو جموں کشمیر میں مروجہ لیزنگ اور ٹورازم رولز/ایکٹ کے تحت ہی حاصل کرے گی۔

معاہدہ کے مطابق لیز پر حاصل کی گئی اراضی اور انفراسٹرکچر سے متعلقہ کمپنی کسی بھی نوع کے فیصلہ جات کرنے کی مجاز ہوگی۔ کمپنی مقامی حکومت سے قرضے، گرانٹس، مالی یا کسی بھی نوع کی معاونت حاصل کر سکے گی۔

حکومت اجازت ناموں، منظوریوں، لائسنس اور این او سی وغیرہ کی صورت میں ہر طرح کا تعاون کرنے کی پابند ہوگی۔ کمپنی کے پاس پراجیکٹ سائٹس کے تمام تر اختیارات ہونگے اور مقامی حکومت کے قوانین کا ان پراجیکٹ سائٹس پرکوئی اطلاق نہیں ہوگا۔

سروس ٹیکس، لیوی، چارجز، سیس، ڈیوٹیز سمیت پراجیکٹ آپریشنز پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ پراجیکٹ سائٹ پر موجود جنگلات ، پتھر، چٹانوں، مٹی، ریت اور دیگر سازوسامان کی کٹائی اور مفت استعمال کی اجازت ہوگی۔

منصوبہ کی تذویراتی اہمیت اور قومی مفاد میں مقامی حکومت خصوصی استثنیٰ، چھوٹ اور رعایتیں کمپنی کو دے گی۔ معاہدہ اور تمام اقدامات آربیٹریشن ایکٹ1940کے تحت ہوہونگے،اورآربیٹریشن یا ثالثی پاکستان کے قانون کے مطابق ہوگی۔ ثالثی کا مقام راولپنڈی ہوگا۔ یعنی تمام تر قانونی معاملات کی سماعت راولپنڈی کی عدالتوں میں ہوگی، مقامی عدالتوں میں کسی قسم کی کوئی ثالثی یا مقدمہ بازی نہیں ہو سکے گی۔

مکتوب کے ساتھ سیاحتی مراکز سے لیز پر حاصل کی جانے والی اراضی اور انفراسٹرکچر کا ایک مجوزہ نقشہ بھی ارسال کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق 776کنال01مرلہ اراضی اور 12بیڈ رومز پر مشتمل 4ریزارٹس اور ایک ریسٹ ہاؤس کی لیز پر لینے کیلئے نشاندہی کی گئی ہے۔ان میں سے 6مقامات محکمہ سیاحت کے اور11مقامات محکمہ جنگلات کے زیر قبضہ ہیں۔

نقشہ کے مطابق محکمہ سیاحت کی اراضی میں اپر و لوئر نیلم48کنال11مرلے، سیراں پیر چناسی میں 24کنال10مرلے اراضی اور ایک 12بیڈ رومز پر مشتمل ریزارٹ جسے غیر فعال قرار دیا گیا ہے، پوٹھ نکر میں39کنال 14مرلے، کوئیاں میں 40کنال اراضی اور ایک 12بیڈ رومز پر مشتمل غیر فعال قرار دیا گیاریزارٹ ، کیل میں 4کنال7مرلے اراضی اور ایک ریسٹ ہاؤس اور سدھن گلی میں 8کنال19مرلے اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ مجموعی طور پر 166کنال 1مرلہ اراضی، دو ریزارٹ اور ایک گیسٹ ہاؤس ہیں۔

محکمہ جنگلات کی اراضی میں شال کے مقام پر 50کنال اراضی، تولی پیر50کنال ، اڑنگ کیل50کنال، شوگراں 50کنال، دواریاں50کنال، جابہ لیک50کنال، منڈاکلی 50کنال، گنگا چوٹی50کنال، لس ڈنہ50کنال، کہوڑی مار 80کنال اراضی اور 12بیڈ رومز پر مشتمل غیر فعال قرار دیا گیا ریزارٹ، بنجونسہ80کنال اراضی اور12بیڈ رومز پر مشتمل غیر فعال قرار دیا گیا ریزارٹ شامل ہیں، جو مجموعی طور پر 610کنال اراضی اور 2ریزارٹ ہیں۔

محکمہ سیاحت و آچار قدیمہ کے اعتراضات

ڈائریکٹر جنرل محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ نے یکم مارچ2024کو سیکرٹری محکمہ کے نام ایک مکتوب تحریر کیا، جس میں کہا گیا کہ چیف سیکرٹری آفس کے ذریعے گرین ٹورازم پرائیویٹ لمیٹڈ نے ایک مجوزہ معاہدہ بھیجا ہے اورمحکمہ سیاحت کی 6اور محکمہ جنگلات کی 11غیر فعال اور خستہ حال اراضی اور سیاحتی انفراسٹرکچر کو لیز پردینے کی درخواست کی ہے۔

مکتوب کے مطابق جی او سی 12ڈویژن مری ، کمانڈر45انجینئرنگ ڈویژن راولپنڈی اور کمانڈر ایم آئی مظفرآباد کے ساتھ مسلسل پرائیویٹ ملاقاتیں کی گئیں۔ 45انجینئرنگ ڈویژن راولپنڈی کی خواہش ہے کہ محکمہ ایس آئی ایف سی کی ملکیتی گرین ٹورازم کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے ساتھ دو طرفہ گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدہ دستخط کرے۔ انہیں یہ واضح کیا گیا ہے کہ محکمہ کا نجی سرمایہ کاری اور ریاستی اثاثوں کو لیز پردینے کا خصوصی قانون ہے، جس میں نجی سرمایہ کار یا پبلک کمپنی کے ساتھ براہ راست مذاکرات یا معاہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی بھی معاہدہ سٹیٹ ٹورازم ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری سے اور مسابقتی بولی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ متذکرہ معاہدہ کیلئے قانون میں ترمیم کی جانی ناگزیر ہے۔

مکتوب کے مطابق کمپنی 4سال کی رعایتی مدت مانگ رہی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو سالانہ 20ملین کا نقصان ہوگا۔ محکمہ نیلم، کیرن، پیر چناسی، سدھن گلی اور راولاکوٹ میں کیمپنگ پاڈز کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ یہ منصوبے ایک سال میں مکمل ہونگے اور کمروں کی گنجائش دگنا ہو جائے گی اور آمدن تین گنا بڑھ جائے گی۔ اس سے بڑھ کر یہ سائٹس منصوبے کی تکمیل تک میسر بھی نہیں ہیں۔

مجوزہ ڈرافٹ ایگریمنٹ کے مطابق حکومت کو 50کیمپنگ پاڈز کی آمدن کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پراجیکٹ کی لاگت میں زمین اور انفراسٹرکچر کی لاگت کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ تھرڈ پارٹی ویلیوایشن کے بغیر پلاننگ کاسٹ متعین نہیں کی جا سکتی۔

گرین ٹورازم کمپنی ٹیکسوں سے مکمل استثنیٰ اور مفت بجلی ، پانی، سڑکوں وغیرہ کا مطالبہ بھی کر رہی ہے، جو ممکن نہیں ہے۔

محکمہ نے نجی سرمایہ کاری کیلئے خالی اراضی پر چیئر لفٹس، کیبل کارز،روڈز، ہائیکنگ ٹریلز وغیرہ کی ڈویلپمنٹ کی تجویز دے رکھی ہے۔ تاہم سیاحتی املاک نجی سرمایہ کار کو لیز پر دینے کیلئے براہ راست مذاکرات یا انتخاب کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ نہ ہی گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ براہ راست سودے بازی کا کوئی قانون موجود ہے۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیزنگ نے بھی 21فروری کو لکھے گئے ایک مکتوب کے ذریعے اس منصوبے پر اعتراضات لگاتے ہوئے قانون سازی کے بغیر سے ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

حکومت کی اگلی منصوبہ بندی

محکمہ سیاحت کے جواب کے بعد 4مارچ 2024کو گرین ٹورازم کمپنی کی جانب سے چیف سیکرٹری کو ایک خط لکھا گیا۔ اس مکتوب میں 5ایام کے اندر میٹنگ طے کرتے ہوئے قانونی دستاویز کی تیاری کیلئے حتمی مذاکرات کرنے کا کہا تھا۔ مکتوب کے ساتھ محکمہ سیاحت کی 6سائٹس اور اراضی کی تعداد بھی لکھی گئی تھی۔ مکتوب کے مطابق سیراں ریزارٹ پیر چناسی19کنال10مرلے، سدھن گلی8کنال18مرلے، کیل4کنال17مرلے، اپر نیلم37 کنال11 مرلے، کیل سیری بیلا88کنال7مرلے، کیران بیلا22کنال 11مرلے (مجموعی طور پر 181کنال 14مرلے) فور ی طور پر لیز پر حاصل کئے جانے ہیں۔

تاہم محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ کے واضح جواب کے بعد ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کابینہ سے منظوری حاصل کرتے ہوئے گرین ٹورازم کے ساتھ یہ معاہدہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ ابتدائی طور پر 181کنال14مرلے اراضی مقبوضہ محکمہ سیاحت کمپنی کے حوالے کی جانے کے بعد عسکری حکام کی جانب سے نشاندہی کی گئی جنگلات کی اراضی کو لیز پر کمپنی کے حوالے کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔

سیاحتی مقامات کو ہتھیانے کی سابقہ کوششیں

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب اس خطے کے سیاحتی مقامات کو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ قبل ازیں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں سیاحتی راہداری بنانے کے اعلانات زور و شور سے کئے گئے تھے۔ نجی سرمایہ کاری لانے کیلئے ٹورازم پروموشن ایکٹ بھی منظور کیا گیا تھا۔ کچھ سیاحتی مقامات پر ریسٹ ایریاز تعمیر کرنے کے علاوہ کچھ دیگر انفراسٹرکچر بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں جن افراد کو وہ انفراسٹرکچر ٹھیکوں پر دیا گیا، وہاں سے کوئی ریونیو حاصل نہیں کیا جا سکا۔

بعد ازاں تحریک انصاف کی حکومت میں ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کیلئے قانون سازی کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ اس مسودہ کے مطابق بھی تمام سیاحتی مقامات کو نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے اور انہیں ہر طرح کے قوانین سے استثنیٰ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم شہریوں کے شدید احتجاج کے بعد یہ منصوبہ بھی موخر کر دیا گیا تھا۔

اب یہ نیا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس مرتبہ عسکری حکام نے یہ فریضہ اپنے کندھوں پر لیا ہے۔ مجوزہ سائٹس میں وہ جگہیں بھی شامل کی گئی ہیں، جہاں عمومی طو رپر سکیورٹی ایشوز بنا کر مقامی آبادیوں کو بھی سیر و سیاحت کیلئے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

خفیہ طور پر چلنے والی تمام سرگرمی کے باوجود شہری اس معاملے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ کسی بھی نوعیت کی قانون سازی کی صورت میں ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

نقصانات اور حل

اس عمل کے ذریعے سیاحتی مقامات پر مقامی آبادیوں کی رسائی ختم ہو جائے گی۔ زیادہ تر مقامات ایسے ہیں جو مقامی آبادیاں چراگاہوں کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کیلئے مال مویشی اور سردیوں کی لکڑیوں کا انحصار انہی مقامات پر ہوتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ان مقامات پر شہریوں کو مویشی پالنے اور زندگی گزارنے میں مشکلات ہوں گی ، بلکہ سیاحتی مقامات پرمقامی آبادیاں جو چھوٹے کاروبار کرتی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے پہلے سے موجود بیروزگاری کی بلند شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے شدید ترین ماحولیاتی تبدیلیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ ایکو سسٹم متاثر ہوگا اور خطے کی زمینی ہیت بھی تبدیل ہو جائے گی۔

اس خطہ میں سیاحت کے فروغ کیلئے مقامی شہریوں کے اشتراک سے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں، جن کی وجہ سے نہ ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مقامی سطح پر بیروزگاری کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔