سیف اللہ
پاکستانی ریاست کا بحران ہر شعبہ زندگی میں اپنا اظہارِ کر رہا ہے۔حکمران طبقہ اپنی نااہلی کے اعتراف کے علاوہ کسی بھی شعبے کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرنے سے مکمل محروم ہے۔وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ تعلیمی بجٹ میں کیا گیا اضافہ ناکافی ہے۔ اس سال تعلیمی ایمرجنسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومت نے مجموعی طور پر تعلیمی بجٹ میں 1.91 فیصد کا اضافہ کیا ہے، جبکہ تعلیم کے عالمی معیار یعنی 4 فیصد تک پہنچنے کے لیے 4,242 بلین روپے درکار ہیں۔
اس سال وفاقی حکومت نے 215 بلین روپے وفاقی تعلیمی بجٹ کے لیے مختص کیے ہیں جن میں سے 46 فیصد ترقی (انفراسٹرکچر وغیرہ) اور 54 فیصد حالیہ تعلیمی اخراجات کے لیے مختص کیے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے یہ بجٹ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں منظور کر لیا ہے۔ اس سال وفاقی حکومت نے 215 بلین روپے وفاق کے لیے، پنجاب کے لیے 673 بلین روپے، سندھ کے لیے 508 بلین روپے، خیبر پختونخواہ کے لیے 393 بلین روپے، بلوچستان کے لیے 162 بلین روپے، 33 بلین گلگت بلتستان کے لیے اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لیے 48 بلین روپے مختص کیے ہیں۔
وزیر تعلیم کا مزید کہنا تھا کہ سال 2023 اور 2024 میں GDP کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 1.5 سے 1.9 فیصد تک گئی ہے اور تمام صوبائی حکومتوں نے تعلیمی بجٹ میں صرف 15 سے 20 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ ملکی تعلیمی نظام کو انتہائی خستہ حالی کا سامنا ہے اور جس قدر تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے یہ تعلیمی خستہ حالی کو مزید برقرار رکھے گا اور بڑھا بھی سکتا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 26 لاکھ بچے تعلیم کی سہولت سے ہی محروم ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کے معیار میں مزید کمی ہوئی ہے اور تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کی خستہ حالی بھی بڑھنے کی طرف گئی ہے۔
گزشتہ سال پاکستانی تعلیمی نظام کے نمائندہ ادارے کی تعلیمی سیکٹر کی کارگردگی کے حوالے سے شائع کی گئی رپورٹ میں خوفناک حد تک تعلیمی نظام کی نااہلی ظاہر ہوئی ہے جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں بنیادی تعلیمی ضروریات کا فقدان جیسا کہ باتھ رومز کی کمی، پینے کے صاف پانی کی کمی اور تعلیمی اداروں کے گرد حفاظتی دیواروں کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔
اس رپورٹ کا جائزہ 313,418 تعلیمی اداروں ، 54,870,964 طالبعلموں اور 2,139,631 معلمین کے تعاون سے لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب، دارالحکومت اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ میں باقی علاقوں کی نسبت تعلیمی سہولیات بہتر نظر آئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ٹوٹل 23 فیصد پرائمری سکولوں جبکہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 31 فیصد ، سندھ کے 61 فیصد اور گلگت بلتستان کے 63 فیصد پرائمری سکولوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود ہے۔
اسی طرح مڈل سکولوں کی حالت بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔ بلوچستان میں صرف 40 فیصد سکولوں اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 52 فیصد سکولوں میں صاف پانی کی سہولت موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر تعلیمی اداروں کے گرد حفاظتی دیواروں کا جائزہ لیا جائے تو سندھ میں صرف 59 فیصد سکولوں، بلوچستان میں 39 فیصد، گلگت بلتستان میں 61 فیصد جبکہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ٹوٹل 31 فیصد سکولوں میں حفاظتی دیواریں موجود ہیں۔
پنجاب اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے علاوہ باقی تمام صوبوں میں تعلیمی اداروں کو بجلی کی فراہمی کے نہ ہونے کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں 15 فیصد، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 21 فیصد، سندھ میں 38 فیصد اور گلگت بلتستان میں 44 فیصد تعلیمی اداروں میں بجلی کی فراہمی کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 24 فیصد پرائمری سکولوں میں ٹائلٹ کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ 10 فیصد مڈل سکولوں اور 3 فیصد ہائی سکولوں میں بھی ٹائلٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بھی طلباء کو ہاسٹلز کا نہ ہونا، فیسوں میں بے جا اضافہ، اظہار رائے اور بحث و مباحثے پر پابندی، بڑھتی ہوئی ہراسمنٹ، بلیک میلنگ، فرسودہ نصاب اور طلباء سیاست سے روکنا جیسے مسائل درپیش ہیں۔ رٹا سسٹم نے طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ سائنس اور دیگر شعبہ جات کے طلباء پاس ہو کر ڈگری تو لے لیتے ہیں لیکن وہ اس علم کو عملی طور پر استعمال نہیں کر پاتے یعنی خود سے کوئی نئی ایجاد نہیں کر پاتے۔
وحشت، نفرت اور تعصب کو تعلیمی اداروں کے اندر حکمران طبقے کی نمائندہ جماعتوں کی طلباء ونگز کے ذریعے سے پروموٹ کیا جا رہا ہے اور یہ اقدامات اس لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ طلباء کو روبوٹ بنایا جا سکے اور حکمران طبقے کے ناپاک عزائم کے لیے انہیں استعمال کیا جا سکے۔
ڈگریاں لینے کے بعد طلباء کے پاس روزگار موجود نہیں ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرے بصورت دیگر بےروزگاری الاوئنس دے۔ تعلیمی کرئیر کو لے کر نوجوان شدید ڈپریشن کا شکار ہیں۔ آئے روز نوجوانوں کی خود کشیوں کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس بدحال تعلیمی نظام میں تعلیم ہی ایک جرم کے مترادف بنا دی گئی ہے۔ حکمران طبقہ عوام کے ٹیکسوں سے عیاشیاں کر رہا ہے۔ فوجی جرنیلوں سمیت سرمایہ داروں کے بھاری اثاثے موجود ہیں دوسری طرف ملکی معشیت کو اس طرح کی بحران زدہ کیفیت میں دھکیل دیا گیا ہے جس میں اصلاحات کی گنجائش باقی نہیں ہے۔
حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے بچے مہنگی مہنگی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں دوسری طرف اکثریتی محنت کش عوام کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے، کون اس کا ذمہ دار ہے ؟
اس سب کے علاوہ پرائیویٹئزیشن بھی تعلیمی نظام کی نااہلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بڑی تعداد میں سرکاری تعلیمی اداوں کو پرائیویٹائز کیا گیا ہے اور آنے والے عرصے میں مزید پرائیویٹائز کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جسکی وجہ سے تعلیمی معیار میں مزید کمی آئی ہے۔
پاکستانی تاریخ کے ایک مردود آمر ضیاء الحق کے دور میں طلباء یونین پر پابندی لگائی گئی اور وحشت، رجعت اور بربریت کو سماج کے اوپر حاوی کیا گیا۔ طلباء یونین پر پابندی سے پہلے طلباء اپنے متعلق فیصلوں میں بااختیار ہوتے تھے لیکن ان کو ذہنی غلام بنانے کے لیے طلباء یونین پر پابندی لگائی گئی جسکی وجہ سے نہ صرف طلباء کا شعوری ارتقاء جمود کا شکار ہوا بلکہ طلباء سیاست کو ہی ایک معیوب چیز سمجھنے کی نفسیات کو پروموٹ کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج طالبعلم طلباء سیاست سے کافی حد تک کوسوں دور نظر آتے ہیں۔
اس ضمن میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی بھرپور کاسہ لیسی کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ طلباء کو سیاست سے بدظن کرنے، حکمران طبقے کے ایجنڈے پر کام کروانے، زبردستی طلباء کو سرکاری سرگرمیوں میں شریک کروانے اور ان کو حکمران طبقے کا آلہ کار بنانے میں ایک بڑا کردار تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ادا کرتی ہے۔
طلبہ کو اس جمود کے عہد کو توڑنا ہو گا۔ مزاحمت کے علاوہ کوئی بھی راستہ طلباء کے مسائل کے حل کے لیے موافق نہیں ہے۔ مزاحمت کے ذریعے سے ہی وہ اپنے حقوق پر ڈالے گئے ڈاکے کا حساب لے سکتے ہیں۔ طلباء کو طلباء اور عوام دشمن پالیسیوں کو بانگ دل للکارنا ہو گا۔
اس تباہ حال تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے، سمسٹر سسٹم کا خاتمہ کیا جائے اور طلباء یونین پر عائد کی گئی پابندی کو ختم کیا جائے تاکہ طلباء بااختیار ہو سکیں اور مسائل کا تدارک کر سکیں ورنہ تعلیمی نظام کی نااہلی کی وجہ سے یہ معاشرہ مزید تغفن زدہ ہو گا۔