لاہور(جدوجہد رپورٹ) امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکوروبیو نے کیوبا میں سرکاری اہلکاروں اور دنیا بھر ایسے تمام افراد کے لیے ویزا پابندیوں کا اعلان کیا ہے، جو کیوبا کے بیرون ملک طبی امدادی پروگرام کے ساتھ منسلک ہیں۔ 25فروری کو جاری کیے جانے والے امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں واضح کیا گیا کہ اس پابندی کا دائرہ کار موجودہ اور سابق اہلکاروں اور ایسے افراد کے قریبی خاندان کے لوگوں تک ہوگا۔
’جیکوبن‘ میں شائع ہونے والے ’ہیلن یافے‘کے تفصیلی مضمون کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران کیوبا کو نشانہ بنانے والا یہ امریکہ کا ساتواں اقدام ہے، جو بین الاقوامی نتائج کا حامل ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کیوبا کے دسیوں ہزار طبی پیشہ وردنیا کے تقریباً60ملکوں میں تعینات کیے گئے ہیں، جو عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کی افرادی قوت سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ طبی عملہ زیادہ تر گلوبل ساؤتھ میں کم یا غیر محفوظ آبادیوں میں کام کر رہا ہے۔ غیر ملکی حکام کے ویزوں کو روکنے کی دھمکی کے ذریعے امریکہ کا مقصد بیرون ملک مقیم کیوبا کے ان طبی مشنوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اگر اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو لاکھوں افراد متاثر ہونگے۔
مارکو روبیو نے سوشلزم کے سخت گیر ناقد کے طور پر اپنا کیریئر بنایا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ جھوٹا الزام بھی لگایا کہ ان کے والدین فیڈل کاسترو کے کیوبا سے فرار ہوئے، حالانکہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ بتیستا کی آمریت کے دوران 1956میں میامی چلے گئے تھے۔ مارکو روبیو کیوبہ کے خلاف جنگی پالیسی آگے بڑھانے والے امریکی ذمہ داروں میں سرفہرست ہیں۔ اس پالیسی کے تحت بھوک اور مایوسی پھیلا کر حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کیوبا کے خلاف اقتصادی جنگ کا استعمال کرنا ہے۔
امریکی حکومت کیوبا پر انسانی اسمگلنگ کا الزام عائد کرتی ہیا ور بیرون ملک مقیم کیوبا کے طبی عملے کو غلاموں کے برابر قرار دیتی ہے۔ روبیو نے اپنے ٹیوٹ میں بھی اسی الزام کو دہرایا ہے۔ اس سب کا مقصد کیوبا کے بین الاقوامی وقار اور طبی خدمات کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی کو نقصان پہنچانا ہے۔2004سے کیوبا کی طبی اور پیشہ ورانہ خدمات کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی ملکی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کیوبا کی عام بین الاقوامی تجارت کرنے کی صلاحیت اس وقت امریکی ناکہ بندی کی وجہ سے رکاوٹوں کا شکار ہے۔ تاہم سوشلسٹ ریاست نے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں اپنی سرمایہ کاری کو قومی کمائی میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ گلوبل ساؤتھ کو مفت طبی امداد بھی اپنے بین الاقوامی اصولوں کی بنیاد پر برقرار رکھی ہے۔
مضمون کے مطابق مئی1960میں چلی میں آنے والے خوفناک زلزلے میں جب ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تو کیوبا کی نئی حکومت نے 6دیہی فیلڈ ہسپتالوں کے ساتھ ایمرجنسی میڈیکل بریگیڈ بھیجی۔ 2005سے بریگیڈ ’ہنری ریوانٹرنیشنل کنٹین جنٹس‘کے نام سے منظم ہیں۔ 2017تک اس بریگیڈ نے 21ملکوں میں 3.5ملین لوگوں کی مدد کی، جس پر ڈبلیو ایچ او نے صحت عامہ کے انعام سے بھی نوازا۔ 2014میں ایبولا سے نمٹنے، 2020میں کووڈ19کی وباء کے ردعمل میں شامل ہوکرہنری ریو بریگیڈز نے مغربی یورپ سمیت 40ملکوں میں 1.26ملین کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا۔
1963میں شروع ہونے والے کیوبا کے طبی ماہرین کے نظام نے نئے آزاد الجیریا میں صحت عامہ کا نظام قائم کرنے میں مدد کی۔ 1970کی دہائی تک پورے افریقہ میں جامع صحت کے پروگرام قائم کیے اور عملہ تیار کیا۔ 2014تک کیوبا کے 76ہزار طبی عملے نے 29افریقی ملکوں میں کام کیا۔ 1998میں ہیٹی کے500پیشہ ور افراد کو تربیت دے کر بھیجنے کا معاہدہ کیا۔
دسمبر2021تک6ہزار سے زائد کیوبا کے طبی ماہرین مغربی نصف کرہ کے غریب ترین ملکوں میں 4لاکھ29ہزار جانیں بچائیں اور 36ملین افراد کو طبی مشورے دیے۔ دو دہائیوں سے کیوبا نے وینزویلا میں 20ہزار سے زائد طبی ماہرین کو برقرار رکھا ہے، جن کی اب تعداد29ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ 2013میں پین امریکن ہیلتھ آگنائزیشن نے کیوبا کے 11ہزار 400ڈاکٹروں کے برازیل کے غیر محفوظ علاقوں میں کام کرنے کا معاہدہ کیا۔ 2015تک کیوبا کا ہیلتھ کیئر پروگرام43ملکوں میں کام کر رہا تھا۔ 2017تک کیوبا آپریشن میریکل کے تحت 15ملکوں میں 69آنکھوں کے کلینک چلا رہا تھا اور2019کے اوائل تک 34ملکوں میں 4ملین سے زائد لوگ ان کلینکس سے مستفید ہو چکے تھے۔
2016تک 85ملکوں سے 73ہزار848غیر ملکی طلبہ کیوبا میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر چکے تھے، جبکہ وہ بیرون ملک 12میڈیکل سکول چلا رہا تھا۔ ان سکولوں میں سے زیادہ تر افریقہ میں ہیں، جہاں 54ہزار سے زائد طلبہ کا اندراج تھا۔ 1999میں لاطینی امریکی سکول آف میڈیسن کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا میڈیکل سکول ہوانا میں قائم ہوا۔ 2019تک اس سکول نے100نسلی گروہوں کی نمائندگی کرنے والے105ملکوں (بشمول امریکہ) سے29ہزار ڈاکٹروں کو گریجویشن کروایا۔ ان ڈاکٹروں میں سے نصف خواتین تھیں اور 75فیصد محنت کش گھرانوں میں سے تھیں۔
1960کے بعد سے کیوبا کے تقریباً 6لاکھ طبی ماہرین نے 180سے زائد ملکوں میں مفت طبی خدمات فراہم کیں۔ کوئٹے مالا کے محقق ہنری مورالس کے مطابق کیوبا نے اپنی جی ڈی پی کا 6.6فیصد سالانہ آفیشل ڈویلپمنٹ اسسٹنس کے لیے وقف کیا، جو دنیا کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپ میں یہ جی ڈی پی کا اوسط0.39فیصد، امریکہ میں 0.17فیصد تھا۔ اگر امریکی ناکابندی نہ ہوتی تو کیوبا اس شرح میں دوگنا اضافہ کر سکتا تھا۔
2017میں کیوبا کے طبی ماہرین 62ملکوں میں کام کر رہے تھے۔ ان میں سے 27ملکوں میں میں یہ خدمات مفت فراہم کی جا رہی تھیں، جبکہ باقی35میں سلائیڈنگ اسکیل کے مطابق اخراجات ادا کیے یا شیئر کیے۔ جہاں میزبان حکومت تمام اخراجات ادا کرتی ہے، وہ بھی بین الاقوامی سطح پر وصول ہونے والے اخراجات سے کم شرح پر کیے جاتے ہیں۔
2018میں کیوبا کے شائع کردہ ڈیٹا کے مطابق صحت کی خدمات کی برآمدات سے کیوبا نے 6.4ارب ڈالر کمائے۔ اس کے بعد سے آمدنی میں کمی آئی ہے۔ تاہم اس کی وجہ کیوبا کی طبی بین الاقوامیت کو سبوتاژ کرنے کی امریکی کوششیں ہیں۔ برازیل میں کیوبا کی آمدنی میں اربوں کی کمی ہوئی ہے۔
سب سے پہلے2006میں جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے کیوبا کے طبی ماہرین کو امریکی شہریت کے بدلے مشن ترک کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا میڈیکل پیرول پروگرام شروع کیا۔ اوباما نے اس حملے کو برقرار رکھا، جبکہ ٹرمپ نے بھی 2019تک اس کی تجدید کی۔ یو ایس ایڈ نے کیوبا کے صحت کے پروگراموں کو بدنام کرنے اور سبوتاژ کرنے کے لیے ایک پراجیکٹ شروع کیا۔
کیوبا میں ایک انسانی حق کے طور پر صحت کی دیکھ بھال کے لیے عزم، اور ایک متوازی نجی شعبے کی عدم موجودگی کے ساتھ عالمگیر صحت عامہ کا نظام فراہم کرنے کے لیے ریاستی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے ذریعے صحت عامہ کا نظام تعمیر کیا۔ ان ذرائع سے کیوبا نے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں لیکن فی کس انتہائی کم اخراجات کے ساتھ صحت کے نتائج حاصل کیے۔ یہ نتائج امریکہ میں فی کس اخراجات کے دسویں سے بھی کم اور برطانیہ میں ایک چوتھائی سے بھی کم اخراجات پر حاصل کیے گئے۔ 2005میں کیوبا نے دنیا میں فی کس ڈاکٹروں کا سب سے زیادہ تناسب حاصل کر لیا تھا۔ 2018میں کیوبا کے پاس امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں ڈاکٹروں کی کثافت تین گنا تھی۔
آج کیوبا شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ بڑی حد تک امریکی پابندیاں ہیں۔ 2021سے بڑے پیمانے پر ہجرت کے بعد وسائل اور عملی کی کمی کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کا نظام بے مثال دباؤ کا شکار ہے۔ اس کے باوجود حکومت صحت کی دیکھ بھال پر جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ وقف کر رہی ہے، مفت عالمگیر طبی فراہمی کو برقرار رکھتی ہے اور اس وقت 24ہزار180طبی پیشہ ور دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود ہیں۔
مورالس کے اعداد و شمار کے مطابق 1999سے2015کے درمیان بیرون ملک کیوبا کے طبی ماہرین نے 6ملین جانیں بچائیں، 1.39ارب افراد کو طبی مورے دیے، 10ملین جراحی کے آپریشن کیے اور 2.7ملین بچوں کی پیدائش کے دوران صحت کی خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح73ہزار848غیر ملکی طلبہ نے کیوبا میں پیشہ ور افراد کے طور پر گریجویشن کیا، جن میں سے بہت سے طبی ماہرین تھے۔