حارث قدیر
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے بڑھتے تعلقات کو جنوب ایشیائی سیاست میں ایک نیا موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ ان تعلقات کے استوار ہونے سے خطے میں نئی صف بندیوں کی راہ ہموار ہونے کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور امریکہ کی جانب سے غیر ملکی امداد کو منجمد یا بند کرنے کے اقدام کے بعد بنگلہ دیش کے چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عبوری حکومت کے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بھارت میں دہشت گردی کے بڑھنے کے خدشے کے طورپر بھی لیا جا رہا ہے۔
شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے ساتھ بھارت کے اچھے تعلقات کی وجہ سے طلبہ تحریک کو بھارتی میڈیا اور انتہا پسند دائیں بازو نے بنیاد پرستی کی یلغار کے طور پر دکھایا اور اب بھی ایک پراپیگنڈہ جاری ہے کہ اسلامی بنیاد پرست قوتیں بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض ہو کر بھارت کے لیے مسائل پیدا کریں گی۔ ساتھ ہی بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے بھی پراپیگنڈہ بھارتی میڈیا پر ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ جس میں فیک نیوز کی ایک بڑی یلغار بھی شامل ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کی پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ گزشتہ سال دسمبر میں قاہرہ میں ایک کانفرنس کے موقع پر ملاقات اور دو طرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین براہ راست سمندری رابطوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پاکستان سے آنے والے کارگو کی فزیکل انسپیکشن کی سابقہ پابندیوں کو بھی ختم کر دیا ہے۔ پاکستان کے سمندری کارگو جہازوں کی براہ راست چٹاگانگ بندرگاہ تک رسائی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان ایک دہائی سے زائد عرصہ سے معطل براہ راست فضائی سفر کا بھی آغاز ہو رہا ہے۔
سب سے اہم پیش رفت بنگلہ دیش کی آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالاسلام کے دورہ پاکستان کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کے ساتھ ملاقات میں دونوں ملکوں کے مابین فوجی تعاون بڑھانے کے اقدامات پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پہلی بار رواں ماہ فروری میں بنگلہ دیشی بحریہ کراچی بندرگاہ پر ہونے والی مشترکہ بحری مشقوں کا حصہ ہو گی۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے فوجی ساز و سامان اور بالخصوص جے ایف تھنڈر جنگی طیاروں کی خریداری میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان انٹیلی جنس کے امور میں تعاون کے شواہد بھی مل رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات
دوسری جانب بنگلہ دیش کی عبوری حکومت چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی جانب بھی گامزن نظر آتی ہے۔ امریکہ کے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ساتھ بھی مثالی تعلقات نہیں رہے اور ماضی میں عوامی لیگ کے کئی رہنماﺅں کے امریکہ داخلے پر پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ شیخ حسینہ واجد کے آمرانہ طرز حکومت اور انتخابات میں دھاندلی پر بھی امریکہ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد امریکہ نے نئی عبوری حکومت کو خوش آئند بھی قرار دیا اور تعاون کرنے کی یقین دہانی بھی کروا رکھی تھی۔ ساتھ ہی گزشتہ سال ستمبر میں امریکہ نے 202 ملین ڈالر کی اضافی امداد بھی عبوری حکومت کو فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد تمام امدادی سرگرمیوں کو منجمد یا بند کرنے کا اعلان کر دیاہے۔ بنگلہ دیش بھیانک پابندیوں کی زد میں آ رہا ہے۔ غیرملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے نہ صرف امریکہ سے اضافی امداد کی اپیل کر رکھی تھی بلکہ آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکیج کی درخواست بھی کی گئی تھی۔ اس کیفیت میں پہلے سے ملنے والی امداد بھی بند ہونے کے بعد بنگلہ دیش کا معاشی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے انتخاب سے پہلے ہی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اقلیتوں کے خلاف مظالم کے حوالے سے ٹرمپ کی ٹوئٹر پوسٹ بھارتی پراپیگنڈہ سے قریب تر تھی اور ٹرمپ انتظامیہ کے عبوری حکومت سے متعلق عزائم کی بھی نشاندہی کر رہی تھی۔
دوسری جانب چین اور بنگلہ دیش کے تعلقات داخلی سیاسی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ حال ہی میں عبوری حکومت کے مشیر خارجہ نے چین کا دورہ کیا۔ اس سے قبل بھی چین نے عبوری حکومت کی حمایت کی اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سمیت دیگر تذویراتی تعلقات کو تقویت دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ چین عبوری حکومت کو بحران سے نکالنے کے لیے ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کو بھی رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔
اگر امریکی امداد میں کٹوتی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آ سکتی ہے تو دوسری جانب چین بنگلہ دیش کو پہلے سے کہیں زیادہ امداد اور قرضوں کی پیشکش کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ امریکی امداد کے منجمد ہونے کے تناظر میں بنگلہ دیش کی نگران حکومت نے چین کے ساتھ دو طرفہ روابط کو اعلیٰ سطح تک بڑھانے پر نہ صرف زور دیا ہے بلکہ کافی جلد بازی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور بھارتی خدشات
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی دہلی کے ساتھ ڈھاکہ کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ شیخ حسینہ کی حکومت کو بھارت کی حمایت حاصل تھی اور وہ اب بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بھارتی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں میں عدم استحکام اور سلامتی کے خطرات کے ایک پیچیدہ جغرافیائی ماحول کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی سرحد پر بھی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
بنگلہ دیش کی سرحدیں بھارتی ریاستوں مغربی بنگال، آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورام سے ملتی ہیں۔ ان شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کو 20 کلو میٹر کی ایک حساس راہداری بھارت کے ساتھ جوڑتی ہے۔ اس راہداری کو ’سلی گوڑی راہداری‘ یا ’چکن نیک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس راہداری کے علاوہ بھارت کا اپنی ان شمال مشرقی ریاستوں کے ساتھ زمینی رابطہ بنگلہ دیش سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔
بھارت کو خدشہ ہے کہ چین کا بنگلہ دیش میں اثر و رسوخ سلی گوڑی راہداری کے نزدیک چین کی موجودگی کو یقینی بنانے کاباعث بن سکتا ہے۔ جو بھارت کے تذویراتی مقاصد کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یوں بھارت کی ان شمال مشرقی ریاستوں میں پہلے سے موجود آزادی کی تحریکوںکو حوصلہ اور مزید تقویت میسر آ سکتی ہے۔
بھارت کے دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے زیر سایہ بھارت کی ماضی کی سفارتی کامیابیوں کے دعوے بھی ہوا ہو چکے ہیں۔ چین، پاکستان کے بعد سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان اور نیپال کے ساتھ ماضی میں سامراجی تسلط کی حد تک قائم تعلقات اب ان ملکوں میں عوامی سطح پر شدید بھارت مخالف جذبات کی صورت میں اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب چین کا اثر و رسوخ ان پڑوسی ملکوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔
پاک بھارت تعلقات
برصغیر کے بٹوارے کی بنیادوں کے باعث پاک بھارت تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ہیں۔ جموں کشمیر پر مکمل دعوے کے علاوہ افغانستان پر اثر و رسوخ بھی دونوں ملکوں کے درمیان کھینچا تانی کی اہم وجہ رہا ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک بار پھر پاکستانی ریاست کے ہاتھ سے اپنے ہی تیار کردہ مہرے نکل چکے ہیں اور ماضی ہی کی طرح تذویراتی گہرائی کی پالیسی ہاتھوں سے سرکتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ بھارتی حکمران البتہ تمام خدشات کے باوجود افغان طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کی جانب سے ایک بار پھر افغانستان میں نئے مہروں کے ذریعے اپنے کردار اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کی پالیسی بنائے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ کے بھارت کے ساتھ راوبط بڑھانے اور شراکت داری کے عمل نے پاکستانی ریاست کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ چین پاکستان راہداری کے حوالے سے چینی ریاست کے مفادات اور پیش قدمی کی راہ میں امریکی عزائم ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔ چین پاکستان میں اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے بھی دباﺅ ڈال رہا ہے۔ جبکہ پاکستانی ریاست کے لیے امریکی سامراج کے مقابلے میں چین کی فوجی موجودگی کی راہ ہموار کرنا انتہائی مشکل اقدام ہے۔ یہ سامراجی چپقلش مستقبل میں اس خطے میں نئے تنازعات کا موجب بھی بن سکتی ہے۔
بنگلہ دیش کو درپیش مسائل اور چیلنجز
عبوری حکومت کو سنگین معاشی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.6 فیصد سے کم کر کے 3.8 فیصد کر دیا ہے۔ رواں سال جنوری کے اعداد و شمار کے مطابق 2024ء کی آخری سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف 1.8 فیصد رہی۔ اس پس منظر میں طلبہ رہنماﺅں اور حکومت سمیت ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اعتماد کی کمی کی وجہ سے سیاسی ماحول انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں کا خیال ہے کہ حکومت کا اپنا ایک ایجنڈا اور عزائم ہیں۔ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی کوششیں بھی ان عزائم میں شامل ہیں۔ جو انتخابات کی تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔
عبوری حکومت کو معاشی بحالی سمیت سیاسی، آئینی اور انتخابی اصلاحات کے عمل سے گزرنا ہے۔ تاکہ گورننس اور معیشت پر مثبت اثرات کے ساتھ آئندہ حکومت سازی کے عمل میں بھی اپنے لئے گنجائشیں پیدا کی جا سکیں۔ اس کیفیت میں بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باعث پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر تجارتی سرگرمیوںکو بڑھانے کی کوشش ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔
نیولبرل اقدامات، قرضوں، بیرونی سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں سے وہ اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے جو بنگلہ دیشی سماج کی اکثریت کی زندگیوں میں بہتری کا باعث بن سکیں۔ سطحی اقدامات، قوانین کی تبدیلی، آئینی اور انتخابی اصلاحات بنگلہ دیش کے محنت کشوںکی محرومیوں کا تریاق کبھی نہیں بن سکتیں۔ اس نظام کو تبدیل کرنے اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی راہ متعین کر کے ہی بنگلہ دیش کے محنت کشوں کو حقیقی معاشی و سیاسی آزادی اور جمہوریت سے سرفراز کیا جا سکتا ہے۔
طاقتوں کا توازن اور سفارتکاری
بین الاقوامی طاقتوں کا توازن تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے ہوتے ہوئے بحران اور عالمی سامراج کے طور پر امریکہ کی کمزوری نے علاقائی سامراجی طاقتوں کی اہمیت کو بڑھاوا دیا ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے ورلڈ آرڈر کے لیے کھینچا تانی موجود ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نئے تجارتی راستوں کی تخلیق، تجارتی راستوں پرکنٹرول اور قبضے کی خواہش اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی دوڑ میں حکمران طبقات اس کرہ ارض کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ نسل انسان کو تاراج کرنے کے لیے کسی بھی انتہا تک جانے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات اور سفارتکاری کے نام پر چلنے والی اس جعلسازی اور سامراجی کھلواڑ میں سامراجی مقاصد، حکمران طبقات کے تجارتی مفادات (بشمول مہنگے اسلحے کی تجارت) اور سرمائے کی لوٹ مار کے اہداف ہی ہمیشہ ترجیح پر رہے ہیں اور آئندہ بھی ہونے والی ان ساری تبدیلیوں میں محنت کشوں کی زندگیوں میں بہتری ایجنڈے کے طور پر کبھی موجود رہنے کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ تمام تر کھیل اس نظام کی بقا اور حکمران طبقات کے اقتدار کو دوام بخشنے سمیت مختلف خطوں کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے ان پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی غرض سے کھیلا جاتا ہے۔
پورے برصغیر جنوب ایشیا کے محنت کشوں اور محکوم قوموں کا مقدر ایک دوسرے کے ساتھ باہم منسلک ہے۔ محنت کشوں کو حکمرانوں کی سفارتکاری کے متوازی اپنے طبقاتی اتحاد کو مستحکم بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ بالخصوص جنوب ایشیائی ملکوں کے مابین حکمرانوں کے مفادات کے پیش نظر سفری سہولتوں میں کچھ آسانی پیدا ہوتی ہے تو یہ محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں، انقلابی قیادتوں اور نوجوانوں کے آپسی تعلقات کی استواری اور جڑت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ جو یقینا اس سامراجی نظام کے خلاف بین الاقوامی جدوجہد کے نئے راستے کھولے گی۔