حارث قدیر
دو روز قبل 5فروری کو ایک ماضی کی نسبت زیادہ جوش و خروش سے سرکاری سطح پر ’یوم یکجہتی‘ منایاگیا۔ پاکستان میں تقاریب تو حسب معمول ہی رہیں، تاہم پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی خصوصی اقدامات کیے گئے۔ 5فروری سے قبل ہی تقریبات کا اختتام راولاکوٹ میں منعقد ہونے والے غیر معمولی جلسے کی صورت میں ہوا۔
اس دوران پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے گرمائی مقامات پر تعلیمی اداروں کی چھٹیاں منسوخ کی گئی تھیں اور تمام سرکاری ملازمین کو بھی خصوصی طور پر حاضر ہونے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی مظفرآباد میں خصوصی تقریب سے خطاب کیا۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی دارالحکومت مظفرآباد میں خطاب کیا، جبکہ جموں کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے پلوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنانے کے ساتھ ساتھ خصوصی تقریبات منعقد کی گئیں۔
غیر معمولی اقدام ریاست کی جانب سے ہی کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے زیر اہتمام خصوصی تقریبات کا انعقاد تھا۔ کالعدم قرار دی گئی جماعۃ الدعوۃ ’یونائیٹڈ موومنٹ‘ کے نام سے کام کرنے والی سیاسی جماعت اور حریت کانفرنس کے زیر اہتمام دارالحکومت مظفرآباد میں جلسہ منعقد کیا گیا۔ اسی طرح پونچھ ڈویژن کے صدر مقام راولاکوٹ میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے اشتراک سے ریلی اور جلسہ منعقد کیا گیا۔
دو دہائیوں بعد ایک بار پھر ’جہادی کلچر‘ پروان چڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم انوار الحق نے 5فروری کو بھی جموں کشمیر میں ’جہاد‘ (عسکری سرگرمیوں) کے احیاء کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ تاہم وزیراعظم پاکستان نے مسئلہ جموں کشمیر کے حل کے لیے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ پاکستانی میڈیا پر البتہ وزیراعظم پاکستان کے بیانات کو ہی اہمیت دی گئی، جبکہ وزیراعظم انوارالحق کی تقریر کا ’جہاد‘ سے متعلق حصہ پاکستانی میڈیا پر چلانے سے گریز برتا گیا۔
میڈیا کی توجہ تو دارالحکومت مظفرآباد میں ریاست کے اہم عہدیداروں کے خطاب پر مرکوز رہی، تاہم پونچھ ڈویژن کا صدر مقام راولاکوٹ ’یوم یکجہتی‘ کے حوالے سے ریاست کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا۔ راولاکوٹ میں 5فروری کو تین پروگرامات منعقد کیے گئے۔ صابر شہید سٹیڈیم میں منعقدہ جلسہ اور مسلح افراد کا جلوس البتہ وہ خصوصی ایونٹ تھا جس کی تیاری گزشتہ دو ہفتوں سے جاری تھی۔ اس جلسے کے لیے منتظمین کے اعلانات کے مطابق لاہور سے نیلم تک مہم چلائی گئی اور مدرسوں کے سیکڑوں طلبہ سمیت عسکریت پسندی کے حامی افراد کو راولاکوٹ میں جمع کیا گیا۔ اس جلسے کے لیے پاکستان میں موجود فلسطینی عسکری تنظیم ’حماس‘ کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
کالعدم قرار دی گئی جیش محمد، جماعۃ الدعوۃ، سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام(ف) سمیت ریاست کے لیے کام کرنے والی دیگر اسی نوع کی تنظیمیں اس جلسے کے لیے کئی روز سے رابطہ مہم چلا رہی تھیں۔ 5فروری سے قبل گھڑسواروں کا جلوس نکالا گیا، لگژری گاڑیوں کی ریلیاں منعقد کی گئیں اور تین روز تک بھاری ساؤنڈ سسٹم لگا کر اناؤنسمنٹ کے ذریعے جلسے میں شرکت کے لیے دعوتی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ اس ریلی اور جلسے کو خصوصی سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے 5فروری سے تین دن قبل ہی پولیس نے خصوصی سرچ آپریشن کیے۔ رات بھر پولیس کی بھاری نفری شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات رہتی اور متعدد افراد کی تلاشی، پوچھ گچھ اور جز وقتی حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔
5فروری کو پوسٹ گریجویٹ کالج گراؤنڈ سے ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریلی میں سینکڑوں مسلح اہلکار شامل تھے، ضلع سدھنوتی کے مدرسوں سے سینکڑوں طلبہ کو گاڑیوں کے ذریعے راولاکوٹ پہنچایا گیا۔ مسلح گھڑ سواروں، باوردی، نقاب پوش مسلح پیدل دستوں اور ڈبل ڈور ویگو گاڑیوں پر تعینات مسلح نوجوانوں سمیت مدرسوں کے طلبہ کی کثیر تعداد پر مشتمل یہ جلوس شہر کی سڑکوں پر مارچ کرتا ہوا صابر شہید سٹیڈیم پہنچا،جہاں جلسہ منعقد کرنے کے لیے پنڈال سجایا گیا تھا۔ حماس کے نمائندوں کے سٹیڈیم میں پہنچنے پر مسلح دستوں نے ان کا استقبال کیا۔
پولیس کی بھاری نفری سٹیڈیم کے چاروں اطراف تعینات رہی، تاہم جلسے کے قریب پولیس کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ کالعدم تنظیموں کے جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح نقاب پوش پنڈال کی سکیورٹی سنبھالنے کے علاوہ ارد گرد عمارتوں کے چھتوں پر بھی موجود تھے۔ جلسے اور ریلی کی ویڈیوز بنانے پر سختی سے پابندی عائد کی گئی تھی۔ کالعدم جیش محمد کے کمانڈر مسعود الیاس نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کے رہنما مولانا سعید یوسف نے اس اجتماع کی صدارت کی۔ فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے ترجمان خالد قدومی، ناجی زہیر اور بلال السطل نے نہ صرف خصوصی شرکت کی، بلکہ یہ جلسہ ہی انہی کے استقبال کے نام پر منعقد کیا گیا تھا۔ جلسہ سے جماعت اسلامی کے سابق امیر ڈاکٹر خالد محمود، سپاہ صحابہ کے آفتاب کاشر کے علاوہ دیگر نے بھی خطاب کیا۔ یوں میڈیا کی نظر کے لیے حماس کے ترجمانوں کا استقبالی جلسہ حقیقی معنوں میں کالعدم قرار دی گئی مذہبی عسکری تنظیموں کا غلبہ قائم کرنے کی ایک زور دار لیکن ریاستی سطح پر ایک محتاط کوشش تھا۔
اس جلسہ کو میڈیا کی نظروں سے دور رکھنے کی کوششوں کے باوجود کچھ ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنتے ہی بھارتی میڈیا کے ہتھے بھی چڑھ گئیں۔ بھارتی میڈیا نے اس عمل کو بھارت کے خلاف ایک بڑی سازش سے تعبیر کر کے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی ریاست کی طرف سے ریاست کے علاوہ ہتھیار اٹھانے والے ہر جتھے، گروہ اور تنظیم کو کالعدم قرار دینے، مذہب کی بنیاد پر ہتھیار اٹھانے والوں کو الخوارج اور دہشت گرد قرار دے کر ملک کے مختلف حصوں میں ایسے عناصر کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کے باوجود جموں کشمیر میں سرکاری سرپرستی میں ایسی ہی تنظیموں کو پروان چڑھانے کا عمل بھی دہرے معیار اور منقسم ریاستی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔
تاہم بھارتی میڈیا کے تمام تر واویلے کے برخلاف اس بار یہ عسکری یلغار بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں کارروائیاں کرنے سے زیادہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پر توجہ مرکوز کرنے کا اقدام زیادہ معلوم ہو رہی ہے۔ گزشتہ پونے دو سال سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں چلنے والی ’عوامی حقوق تحریک‘ میں عوام اورنوجوانوں کے متحرک کردار کے بعد ریاست کی جانب سے پے درپے اقدامات عوامی حقوق کے لیے بیدار عوامی شعور سے ریاست کے خوفزدہ ہونے کی علامات ہیں۔
مئی2024کے بعد ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیاپر خصوصی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور ایسے دفاتر قائم کیے گئے ہیں، جہاں سے ریاست کے حق میں مسلسل پروپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک کو منظم کرنے والے ترقی پسند اور قوم پرست رہنماؤں کے خلاف ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی بھرتیاں کی گئی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا مراکز کے قیام کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ تمام اضلاع اور تحصیل صدر مقامات سے نوجوانوں کو ان ڈیجیٹل میڈیا مراکز کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے۔ ریاستی پروپیگنڈے پر مبنی دستاویزی فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ خلاف معمول5فروری کے موقع پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)نے خصوصی گیت بھی تیار کروایا ہے۔
صحافیوں، سیاستدانوں، اساتذہ اور یونیورسٹی طلبہ کی ریاستی منشاء کے مطابق ذہن سازی کے لیے ’سکیورٹی ورکشاپس‘ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ممبران اسمبلی اور اہم پاکستان نواز سیاسی رہنماؤں کی تربیت کے لیے ’نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی‘(این ڈی یو) میں بھی خصوصی تربیت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔فوج کے زیر اہتمام جامعات میں آئی ٹی مرکز کے قیام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں، گرلز اور بوائز کالجز میں بھی آئی ٹی مراکز کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں،اور تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی خصوصی تربیت کے لیے ہتھیاروں کی تربیت سمیت اسی نوعیت کے دوسرے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق فوجی اہلکاروں اور افسروں کو بریگیڈ ہیڈکوارٹرز میں بلا کر خصوصی ہدایات جاری کرنے کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر ان سابق فوجی اہلکاروں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کے بچوں کو عوامی تحریکوں میں جانے سے روکیں اور پاکستان و فوج مخالف جذبات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ بلدیاتی نمائندوں اور دوسرے، تیسرے درجے کی پاکستان نواز قیادتوں کو بھی اسی نوعیت کی خصوصی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔
سیاسی محاذپر بھی ’الحاق پاکستان‘ اور پاک فوج کے حق میں پروگرامات منعقد کرنے پر جس طرح زور دیا جا رہا ہے، اس سے ظاہر ہو تاہے کہ پاکستان کی فوجی اشرافیہ اور حکمرانوں پر یہ بات کھل کر عیاں ہو چکی ہے کہ جموں کشمیر کے نوجوانوں میں نوآبادیاتی قبضے کے خلاف شدید نفرت ہے۔ اس نفرت کو کم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں پاکستان اور فوج کے حق میں ذہن سازی کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ ریاست کی جانب سے ہی متعارف کروایا گیا پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا پرچم اب ریاست کے لیے ایک کانٹا بن چکا ہے۔ پاکستان کا جھنڈا لگانے اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھمانے کی سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ تاہم نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھاری سرمایہ کاری سے ریاستی سرپرستی میں منعقد ہونے والے پروگرامات میں بھی نہ چاہتے ہوئے پاکستانی پرچم کو پیچھے دھکیلنا پڑتا ہے، تاکہ کسی حد تک لوگوں کی شرکت یقینی بنائی جا سکے۔ 76سالوں کے دوران جو پاکستان نواز سیاسی جماعتیں تیار کی گئی تھیں، اب ان کے کارکن بھی پاکستان کا جھنڈا اٹھانے سے کترا رہے ہیں۔ سکولوں کے بچوں کو ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے لگانے کے لیے جمع کیا جاتا ہے، لیکن وہاں بھی اکثریتی جواب’خودمختار‘ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بچوں کے ایسے نعروں کی متعدد ویڈیوز گزشتہ ڈیڑھ سال سے سوشل میڈیا پر ریاستی منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کو جمع کر کے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کے لیے منعقد کروائی گئی ریلی میں بھی گزشتہ سال بچوں نے ’کشمیر بنے گا خودمختار‘ کے نعرے لگالیے، مزید ظلم یہ ہوا کہ ان نعروں کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے سماج میں ہونے والی ان تبدیلیوں نے نوآبادیاتی نظام پر سخت سوالات اٹھائے ہیں اور آئین ساز، بااختیار حکومت کا قیام عوام کا ایک مقبول مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔ ایسی کیفیت میں ریاست کی تمام تر پھرتیاں اور جہادی کلچر پروان چڑھانے کی کوششیں بھی بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں کوئی بڑا آپریشن شروع کرنے سے زیادہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی توجہ کو بنیادی معاشی اور سیاسی حقوق سے سرکاری سطح کی ’تحریک آزادی‘ کی طرف مبذول کروانے کے لیے ہی معلوم ہوتی ہیں۔ گو اگرتحریک کوئی فیصلہ کن نتائج حاصل کیے بغیر طوالت اختیار کرتی ہے تو پھر بعید نہیں کہ ایک بار پھر جموں کشمیر پر پراکسی جنگ مسلط کر دی جائے۔ اس کا شکار البتہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے زیادہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے لوگ ہی ہونگے۔ مسلح تنظیموں کی سرگرمیوں کے ذریعے پولرائزیشن کی فضا بنانے اور پھر فوجی آپریشن شروع کرنے جیسے اقدامات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جب بھی مقامی سطح پر خود رو تحریکیں ابھری ہیں، یا نوآبادیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے والی سیاسی تحریکیں بننا شروع ہوئی ہیں، تو تاریخی طور پر انہیں ’سرکاری تحریک آزادی‘ سے الجھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ درحقیقت جموں کشمیر کی آزادی کی دو تحریکیں ہیں۔ ایک تحریک ریاست پاکستان اور اس کے زیر انتظام جموں کشمیر کی حکمران اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کی تحریک ہے۔ اس تحریک کو اقوام متحدہ، رائے شماری، قراردادوں اور پاکستان کی وکالت وغیرہ سے الجھا کر ’جہاد‘کو اس کی کامیابی کا واحد ذریعہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کو تکمیل پاکستان کی تحریک بھی قرار دیا جاتا ہے اور عملی طور پر اس تحریک کے نام پر ہی جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر نوآبادیاتی قبضہ قائم ہے۔ بھاری فوجی اخراجات کا دارومداربھی اسی تحریک پر ہے اور سب سے بڑھ کر جموں کشمیر کے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار بھی اسی تحریک کے نام پر جاری ہے۔ اس تحریک کے لیے یکجہتی بھی حکومتی ایوانوں میں تقریبات، سرکاری سطح پر تعطیل اور جعلی بیان بازیوں سے مزئین ہوتی ہے۔
جموں کشمیر کی آزادی کی ایک دوسری تحریک بھی ہے۔ یہ آزادی کی حقیقی تحریک ہے اور یہ اس خطے کے محنت کشوں، نوجوانوں اور عام عوام کی تحریک ہے۔ یہ تحریک جموں کشمیر سے نوآبادیاتی قبضے کے خاتمے کی تحریک ہے، یہ تحریک سامراج مخالف تحریک ہے، تعصبات کے خاتمے کی تحریک ہے، وسائل پر اجتماعی ملکیت کے حصول کی تحریک ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ تحریک نہ صرف جموں کشمیر بلکہ پورے برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی بقاء کی تحریک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک میں جموں کشمیر کے محنت کشوں کے اتحادی سامراجی حکمران نہیں بلکہ دنیا بھر کے محکوم اور مظلوم انسان ان کے اتحادی بن سکتے ہیں۔
یکجہتی طبقے کی بنیاد پر، محکومی اور مظلومیت کی بنیاد پر، جدوجہد،ایکتا اور اتحاد کی بنیاد پر،اورجدوجہد نسل انسانی کی آزادی اور بقاء کے لیے۔