عروج امجد
بنگله دیش کے طلبہ اس وقت کئی دنوں سے سرکاری نوکریوں میں سفارشی بھرتیوں اور اقربا پروری کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ جسکے ردعمل میں بنگلہ دیشی حکومت نے طلبہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 100 سے زائد لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔
جے کے این ایس ایف اور آر ایس ایف پاکستان اور جموں کشمیر کے طلبہ کی طرف سے بنگلہ دیش میں طلبہ مظاہرین پر حکومت کے وحشیانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ ریاستی دہشت حکمران طبقے کی فسطائیت کی وضاحت کرتی ہے۔ سرکاری نوکریوں میں رائج 30 فیصد تحریک آزادی بنگلہ دیش میں شامل لوگوں کے بچوں اور پوتوں کے لیے مختص کوٹے کا خاتمہ طلبہ کا ایک جائز اور منصفانہ مطالبہ ہے جسکی ہم غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ اس نظام کے ہر جبر کے خلاف ہماری مشترکہ جدوجہد جاری رہے گی۔
ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش باقی تمام ترقی پزیر ممالک کہ طرح بیروزگاری کے ایک گہرے بحران کے اندر داخل ہے یہ مظاہرے نوجوانوں میں بھرے غم اور غصے کہ عکاسی کرتے ہیں۔ سرکاری نوکریاں جو بنگلہ دیش جیسے ممالک میں نسبتاً بہتر روزگار تصور ہوتا ہے کو صرف ایک مخصوص ریاست نواز سماجی پرت تک محدود رکھنے سے ایک طرف تو طاقت اور دولت مراعات یافتہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہی مرکوز رہتی ہے۔ تو دوسری طرف پرائیویٹ سیکٹر میں عوام کو بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھ کر بدترین جبر و استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مثلآ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائیل کی صنعت (جہاں دنیا کی 60% پیداوار ہوتی ہے اور جوعالمی اجارہ دار کمپنیوں کے لیے اربوں ڈالرکماتی ہے) میں کام کرنے والے محنت کش ماہانہ 75 ڈالر کی فاقہ کش اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کم اجرت کے ساتھ ساتھ ان فیکٹریوں میں موجود کام کرنے کے حالات ایسے ہیں کہ انہیں اگر انہیں تابوط کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
یہ شدید عدم مساوات اور استحصال بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر سرمیاداری کا پیدا کردا ہے اور خاص طور پر نیو لبرل پالیسیوں کے تحت بحران اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ڈھاکہ کی سڑکوں سے لے کر کشمیر کے پہاڑوں تک، چین کے کارخانوں سے لے کر جنوبی افریقہ کی کانوں تک دن رات محنت کرنےکے با وجود اربوں محنت کش اور مزدور اپنی زندگی برقرا نہیں رکھ پا رہے ۔ ایک کونے پر دولت کے مسلسل جمع ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سےاشرفیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ دوسرے کونے پر عوام کو غربت اور بدحالی کی پستیوں کی سمت دھکیلا جا رہا ہے۔
طلبہ اور نوجوان کسی بھی سماج کی سب سےہراول پر ہوتے ہیں اور موجودہ عہد میں سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف برپا ہونے والی تحریکوں کی قیادت کر رہے ہیں جو قابل ستائش ہے ۔ چاہے وہ فلسطین سمیت پوری دنیا میں پھیلی اسرائیلی جبر کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد ہو یا سری لنکا کے صدارتی محل میں عوامی قبضہ، کشمیر کی وادیوں میں بنیادی حقوق کی تحریک ہو یا کینیا میں عوام کی ریاست کے خلاف شاندار فتح طلبہ اور نوجوان ظلم، سامراج اور معاشی ناانصافی کے خلاف تحریکوں میں مسلسل سب سے آگے رہے ہیں۔ یہی وہ قوت ہے جو آنے والے انقلابات کو تعمیر کرنے میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرے گی جو اس دنیاسے اس سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے یہاں ایک بہتر سماج تخلیق کرینگے۔
بنگلہ دیش کے طلبہ اپنی لڑائی میں تنہا نہیں بلکہ وہ اس نظام کے خلاف ایک عالمی تحریک کا حصہ ہیں جو خاموشی کو توڑ کر استحصال، عدم مساوات اور جبر کے خاتمے کی جدوجہد کا رخ اختیار کر چکی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بنگلہ دیش کے طلبا اپنی اس جدوجہد میں ضرور کامیاب ہونگے اور دنیا بھر کے خاص طور پر برصغیر جنوبی ایشیا کے نوجوانوں کے لیے جدجہد کی ایک نئی راہ کا تعین کرینگے۔