لاہور (جدوجہد رپورٹ) اتوار کے روز غلاموں کی تجارت کرنے والے ایڈورڈ کولسٹون کا برطانیہ کے شہر برسٹل میں مجسمہ گرا دیا گیا۔ اس واقعے نے برطانیہ میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
لندن کے مئیر صادق خان نے ایک نیا کمیشن قائم کر دیا ہے جو ایسے مجسمے گرانے کی سفارشات تیار کرے گا جو غلاموں کی تجارت، سامراجیت یا نسل پرستی کی علامت ہیں۔ اس کے علاوہ گلیوں، سڑکوں کے نام اور عوامی مقامات پر مورلز اور پینٹنگز وغیرہ کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
صادق خان کا کہنا ہے: ”یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے شہر اور قوم کی دولت کا ایک بڑا حصہ غلاموں کی تجارت سے آیا۔ یہ حقیقت ہمارے عوامی مقامات سے عیاں ہے۔ ہماری بعض دیگر کمیونیٹیز کی خدمات کو پس پشت ڈالا گیا“۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق برسٹل کے بہت سے شہریوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ کولسٹون کے مجسمے کو مظاہرین نے گرا دیا مگر برطانیہ کی حکومت نے اس کی مذمت کی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ برطانیہ میں غیر سفید فام لوگوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے جس کے خاتمے کے لئے ان کی حکومت اقدامات کرے گی مگر پولیس اور یادگاروں پر حملے کرنے والوں کے خلاف قانون اپنے آہنی ہاتھ سے نپٹے گا۔
کولسٹون کے مجسمے کے گرائے جانے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں سیسیل رہوڈز کے مجسمے پر تین سال پرانی بحث نے پھر جنم لیا ہے۔ یونیورسٹی کے بعض طالب علم اس کا مجسمہ یونیورسٹی سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ رہوڈز غلاموں کی تجارت کے حوالے سے افریقہ میں نفرت اور تشدد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اس کے نام پر سکالر شپ بھی دیا جاتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کچھ مجسمے لندن کی حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ جیسا کہ ونسٹن چرچل کا مجسمہ۔ اتوار کے روز کسی نے لندن میں چرچل کے مجسمے پر بھی نسل پرست لکھ دیا تھا۔ چرچل بلاشبہ نسل پرستانہ نظریات اور سامراجی نظریات کے لئے مشہور ہیں مگر برطانیہ کے بہت سے لوگ انہیں فاشزم کے خلاف جنگ کا ہیرو بھی مانتے ہیں۔ مئیر صادق خان کا بھی کہنا ہے کہ چرچل کا مجسمہ نہیں گرایا جائے گا۔