اداریہ جدوجہد
عمران خان کی قیادت میں قائم تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی دو سالہ مدتِ اقتدار میں کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جس کا وہ عوام سے کریڈٹ لے سکے۔ سرمایہ داروں کی بات الگ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نا اہلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ معیشت کی کمر توڑ دی گئی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کو بے لگام کر دیا گیا۔ ماحولیاتی بحران، آبادی کا دباؤ، انسانی حقوق کی صورت حال، خارجہ پالیسی، قومی سوال، مذہبی اقلیتوں کے مسائل…ایسے کسی مسئلے پر تو خیر اِن سے کیا توقع رکھی جائے کہ جس ملک میں عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں وہاں تو تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مطالبے بھی ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔
ایسے میں عوام کی بد قسمتی کہ کرونا کا بحران بھی ایسی، عوامی نقطہ نظر سے، نا اہل حکومت کے دور میں سامنے آیا۔ ذرا اس حکومت کی کرونا پالیسی کی طائرانہ جائزہ لیتے ہیں:
مارچ میں جب پہلی دفعہ لاک ڈاؤن کیا گیا تو عمومی شعور بھی لاک ڈاؤن کے حق میں تھا۔ ادھر عید سر پر تھی۔ عید ایسا موقع ہے جب تاجر طبقہ عوام کی جیبوں سے با آسانی پیسے نکلوا لیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو گمراہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولوی حضرات کے ذریعے لوگوں کو باور کرایا گیا کہ کرونا ہے ہی نہیں۔ سازشی نظریات کو میڈیا کے ذریعے عام کیا گیا۔ وزیر اعظم اور ارکانِ کابینہ نے خود عوام سے غلط بیانی کی۔ یوں جو ایک ابتدائی اتفاق رائے بنا، اسے ختم کر دیا گیا تا کہ تاجر عید پر پیسے کما سکیں۔
لاک ڈاؤن کو مذاق بنایا گیا۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ کرونا معمولی بخار ہے، گھبرائیں مت۔ کبھی غریب مزدوروں کے روزگار کے نام پر لاک ڈاؤن لگانے سے گریز کیا گیا۔ رہی سہی کسر عدالتی فیصلے نے نکال دی۔ لاک ڈاؤن کے خاتمے سے اب روزانہ کی بنیاد پر کرونا سے سینکڑوں اموات ہو رہی ہیں۔
ایک برطانوی جائزے کے مطابق اگلے دو ماہ میں بائیس لاکھ جانیں چلی جائیں گی۔ اب تو اسد عمر بھی بارہ لاکھ اموات کی بات کر رہے ہیں۔ چند دن پہلے تک کہہ رہے تھے کہ اموات توقع سے کم ہیں۔
گذشتہ روز لاہور کو سیل کرنے کا نیا اعلان کیا گیا ہے۔ خجالت کا یہ عالم ہے کہ لاک ڈاؤن کی بجائے سیل کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔
دریں اثنا ملک بھر کے بڑے ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں اور نظام صحت جواب دے رہا ہے۔ اس سو جوتے سو پیاز والی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے مریض اور ان کے لواحقین ڈاکٹروں اور نرسوں سے لڑائی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یعنی عوام کو عوام سے، شہریوں کو شہریوں سے لڑا دیا گیا ہے۔
اب ہو گا یہ کہ نہ جانیں بچیں گی نہ معیشت۔ لوگ کرونا سے بھی مریں گے اور بھوک سے بھی۔ ہسپتال کا نظام ناکام ہو جانے سے اب لوگ ایسی بیماریوں سے بھی ہلاک ہو جائیں گے جن کا علاج ممکن تھا۔ اگر کرونا کو ایک جنگ قرار دے دیا جاتا تو اس حکومت کی پالیسی جنگی جرائم کے زمرے میں آتی۔
’ادارہ جدوجہد‘کا روز اول سے یہ موقف رہا ہے کہ ایک کرونا کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں سول سوسائٹی، نظام صحت، حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندے ہوں۔ ماہرین صحت کرونا پالیسی تشکیل دیں اور حکومت اس پالیسی پر سول سوسائٹی کی مدد سے عمل درآمد کرائے۔
فوری طور پر: ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے۔ پالیسی یہ ہونی چاہئے کہ ہسپتالوں پر بوجھ کم ہو اور کرونا پھیلنے کا عمل سست ہو سکے۔
سب سے اہم: انسانی جان اولین ترجیح ہونی چاہئے نہ کہ کسی کا منافع۔