فاروق سلہریا
سو سال ہونے کو آئے مولانا اشرف تھانوی نے ”بہشتی زیور“ تحریر کی تھی۔ مولانا کی اس لاجواب تصنیف کا مقصد تھا مسلمان خواتین کو بے حیائی سے بچانا۔
بے حیائی کے الزام میں مولانا تھانوی کے پیروکار آج کل مہوش حیات کے درپے ہیں۔ مہوش حیات پر الزام ہے کہ انہوں نے مختصر کپڑوں میں اپنے ڈانس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مہوش حیات کو حیا کی پٹیاں پڑھانے والی ’مورالٹی برگیڈ‘نے یہ واضح نہیں کیا کہ اگر وہ تھوڑے زیادہ کپڑے پہن لیتیں تو کیا ان کا رقص اخلاقی معیار پر پورا اترتا؟ رقص کم کپڑوں میں ہو یا چادر پہن کر، جب عورت کے بدن کو ہی منڈی کی معیشت جنس بنا دے، توایسے میں لباس کی پیمائش کوئی معنی رکھتی ہے؟ ایسی باتوں پر اس عہد یوتھیا میں زیادہ سر نہیں کھپایا جاتا۔
مہوش حیات کے رقص نے مجھے نازیہ حسن کی یاد دلا دی۔
بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد میں یوتھ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کی میزبانی نازیہ حسن نے کی اور یہ پروگرام پی ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا۔ گانا گاتے ہوئے نازیہ حسن نے تھورا بہت لہک لیا۔ ہال میں موجود نوجوان بھی بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ بس پھر کیا تھا، پورے ملک میں ایک مہم شروع ہو گئی کہ بے نظیر نے فحاشی کا طوفان مچا دیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحثیں شروع ہونے لگیں۔ نوائے وقت نے کالم اور اداریے لکھنے شروع کر دئیے۔ جمعیت نے پی ٹی وی کے باہر بم پھوڑ دیا۔ پروگرام کے ڈائریکٹر شعیب منصور کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔
میں نے یو ٹیوب پر بہت تلاش کیا مگر مجھے اس پروگرام کی ویڈیو نہیں ملی۔ یقین کریں جتنی ”فحاشی“ کا ارتکاب مرحومہ نازیہ حسن (جو آج بھی میری پسندیدہ گلوکارہ ہیں) نے کیا تھا، اس سے کہیں زیادہ بے حیائی ”دیکھنے والی آنکھ“ مروجہ رمضان شوز میں ڈھونڈھ لے گی۔
دس سال پہلے کی بات ہے، پی ٹی وی ڈراموں پر تحقیق کے دوران میں نے نوے کی دہائی کے اخبارات کی ورق گردانی کی۔ ایک بالکل واضح رجحان تھا۔ جب بی بی کی حکومت ہوتی (1988-1990ء، 1993-1996ء) تو اردو اخبارات بالخصوص جنگ اور نوائے وقت اور حزب اختلاف (بالخصوص مسلم لیگ نواز اور جماعت اسلامی) کو ہر طرف فحاشی دکھائی دینے لگتی۔
وقت بدلا۔ پی ٹی وی تقریباًماضی کا قصہ بن گیا۔ اب تجارتی میڈیا کا دور ہے۔ ہر سیاستدان اور ہر مولوی ٹیلی وژن اسکرین پر نظر آنا چاہتا ہے۔ مجال ہے کسی کو یہ مطالبہ سوجھا ہو کہ عشا کی اذان نشر کی جائے جیسا کہ پی ٹی وی سے مطالبہ کیا جاتا تھا(اور پی ٹی وی اذان نشر کرتا بھی تھا۔ غالباًیہ سلسلہ ضیا دور میں شروع ہوا تھا)۔
نوائے وقت کا ”وقت“چینل بند ہو گیا مگر اس نے کبھی کسی اشتہار کو بے حیائی کی وجہ سے روکا ہو؟ کبھی جنگ والوں نے ”جیو“پر بے حیائی کی وجہ سے کوئی اشتہار روکا ہو؟ کبھی ان کو خیال آیا ہو کہ وقفے میں اشتہار دکھانے کی بجائے ثواب کمایا جائے؟
سب سے اہم بات یہ کہ ”بے حیائی“ کو عورت کے بدن تک محدود کر دینے والوں کو اصل فحاشی کیوں دکھائی نہیں دیتی جو غربت، ظلم، استحصال، چائلڈ لیبر، دولت کی نمائش، گھریلو تشدد، ماحولیاتی آلودگی اور نہ جانے کس کس روپ میں ہمارے سامنے روز ننگا ناچ رہی ہوتی ہے۔
آخر فحاشی سے مراد یہی تو ہے کہ فحش چیز آنکھوں کو اچھی نہیں لگتی مگر حیرت ہے کہ عورت کے ننگے پیٹ پر تڑپ اٹھنے والے ثنا خوان ِ تقدیس مشرق عورت کے بھوکے پیٹ اور اس کی بھوکی گود میں بلکتے بچے کو دیکھ کر بے حیائی کا ماتم کرتے کبھی بھی دکھائی نہیں دئیے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔