گوہر بٹ
”دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو میرا سلام پہنچے“!
اس جملے سے جڑی یادوں اور ٹی وی کمپیرنگ میں ایک منفرد انداز رکھنے والے طارق عزیز اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
طارق عزیز 1997ء سے 1999ء تک مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بھی رہے۔ اس دوران وہ نواز شریف کے کافی قریب سمجھے جاتے تھے لیکن اصل صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی۔ اسی دور میں رپورٹر کی حیثیت سے مجھے وزیراعظم نواز شریف کی کھلی کچہری کو کوور کرنے کا موقعہ ملا (ان دنوں نواز شریف ماڈل ٹاؤن والے گھر میں کھلی کچہری لگایا کرتے تھے)۔
جو لوگ نواز شریف کو جانتے ہیں انہیں علم ہوگا کہ نواز شریف ایک برادری پرست شخصیت کے مالک ہیں۔ اس وجہ سے کھلی کچہری میں میرے داخل ہوتے ہی خواجہ ریاض محمود (کھلی کچہری کے انچارج اور انتہائی شفیق شخصیت کے مالک) اپنی گرجدار آواز میں کہتے ”بٹ صاب نوں راہ دیو“۔ اس کے بعد میرے لیے راستہ بن جاتا اور میں نواز شریف کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا۔
اکثر اوقات نواز شریف اٹھ کر مجھ ے مصافحہ بھی کرتے جس سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ میرے نواز شریف سے بہت اچھے مراسم ہیں (جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا)۔ اسی تاثر کیوجہ سے میرے ہم عصر رپورٹرز میں پیشہ وارانہ حسد بھی پیدا ہو گیا تھا۔
اسی تاثر کی بنا پر طارق عزیز نے مجھے ایک دفعہ کہا: ”آپ نواز شریف سے کہیں کہ قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کردیں کیونکہ یہ آئینی ضرورت بھی اور اس وجہ سے نواز شریف کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوگا“۔
مجھے یہ بات پسند آئی اور میں نے نواز شریف سے یہ بات کردی۔ وزیراعظم نواز شریف کو بھی یہ تجویز پسند آئی انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو اس بارے میں قانونی نکات دیکھ کر اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے کی ہدایت کردی۔
تاہم کچھ عرصہ بعد ہی قبل اس کے کہ اس ہدایت پر عمل ہوتا وزیراعظم نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوگئی اور پھر نواز شریف اپنی بقاکی جنگ لڑنے میں مصروف ہو کر اردو کو سرکاری زبان بنانے کی ہدایت بھول گئے۔
وقت گزر تاگیا… شاید 2013ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عدالتی اور سرکاری زبان اردو ہوگی۔ اس حکم پر آج تک مکمل عمل نہیں ہوسکا۔
طارق عزیز مرحوم کے ساتھ یہی ایک یاد وابستہ تھی، سوچا نذر قارئین کرتا چلوں۔