پاکستان

میڈیا مالک جیل جائیں تو کارکن صحافی دل میں خوش ہوتے ہیں

گوہر بٹ

تیسری دنیا کے ممالک میں صحافت پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان، بھارت، برما اور بنگلہ دیش میں سچ بولنے اور لکھنے والوں پر پابندیاں شروع سے تھیں۔ آج بھی ہیں۔

پاکستان کے اندر تو ماضی میں صحافیوں کو نہ صرف پابند سلاسل کیا گیا بلکہ کوڑے بھی مارے گئے۔ گزشتہ چند ماہ سے پاکستان میں میڈیا کے سب سے بڑے گروپ، جنگ میڈیا گروپ، کے مالک میر شکیل الرحمان کو نیب نے ایک ایسے مقدمے میں قید کر رکھا ہے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے۔

یہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اسلئے اس کے مندرجات پر تو بات نہیں جاسکتی البتہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ میر شکیل کو نہیں چھوڑیں گے۔ اسلئے میر شکیل کی گرفتاری کو صحافی برادری اسی تناظر میں دیکھتی ہے۔

میر شکیل کی گرفتاری اسلام آباد کے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا اور میڈیا پر لگنے والی دیگر پابندیوں کے حوالے سے کچھ روز قبل کالم نگار اور مقامی تنظیم’سوچ‘ کے کے سربراہ محمد۔ مہدی نے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس نشست کی صدارت مجیب الرحمن شامی صاحب نے کی جبکہ اس میں سہیل وڑائچ، حفیظ اللہ نیازی، سجاد میر سمیت دیگر صحافیوں نے شرکت کی۔

صدرِ محفل مجیب الرحمان شامی نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو آزادی صحافت ہر حملہ تو قرار دیا لیکن زیادہ زور اس بات پر دیا کہ حکومت کو میڈیا مالکان کو ایک ریلیف پیکج دینا چاہئے تاکہ میڈیا انڈسٹری معاشی بحران سے باہر آسکے۔ ساتھ ہی انہوں نے تمام کارکن صحافیوں کو میر شکیل کی گرفتاری کی مذمت اور ان کی حمایت کرنے پر بھی زور دیا۔

اس موقعہ پر سٹیج سیکرٹری نے راقم الحروف کو بھی بولنے کا موقعہ دیا جس پر راقم نے عرض کیا کہ میڈیا انڈسٹری نے گزشتہ مالی سال میں 40 ارب روپے کا بزنس کیا (یہ بات جیو کے اینکر شہزاد اقبال نے اپنے پروگرام میں بتائی ہے) اس کے باوجود میڈیا مالکان مزید ریلیف پیکج مانگتے ہیں جبکہ کارکن صحافیوں کو ان کی تنخواہ بروقت ادا نہیں کی جاتی۔

خود میر شکیل کے ادارے جنگ اور جیو میں تین ماہ کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی جبکہ باقی تمام اداروں نے کارکنوں کی تنخواہوں میں 40 فیصد تک کٹوتی کردی ہے۔

راقم نے مزید عرض کیا کہ جب مالک اربوں روپے کما رہا ہو اور کارکن کو اس کی تنخواہ بھی ادا نہ کرے تو پھر ایسے حالات میں جب مالک پر کوئی افتاد پڑے تو کارکن اس کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ دل ہی دل میں انہیں تسکین ملتی ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آج پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں ہیں اور سچ بولنا پہلے سے زیادہ مشکل ہوگیا ہے لیکن یہ صورتحال پیدا کیوں ہوئی، اس طرف سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی جمہوری معاشرے میں آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے قوانین کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خاتمے کے بعد پیپلزپارٹی حکومت میں آئی تو میڈیا مالکان کی ہدایت پر اس کی قیادت کو انتہائی منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں وہ 2013ء کے انتخابات ہار گئی۔

اسی طرح جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو اسی میڈیا نے نواز شریف کے خلاف ایک مہم چلائی اور حد یہ تھی کہ جب عدالت نے انہیں نا اہل قرار دیا تو بعض اینکرز نے اس پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔

اب جب تیسری پارٹی تحریک انصاف آئی (جس کو ابھی جمہوری بننے میں کافی وقت لگے گا بلکہ وہ تو جمہوریت کو طعنہ کے طور پر استعمال کرتی ہے) تو اس نے آتے ہی سب سے پہلے میڈیا پر ہی قدغن لگانا شروع کردی۔ اب وہ میڈیا کو 90 فیصد سے زیادہ کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔

اس طرح میڈیائی دانشوروں نے اس شاخ کو خود ہی کاٹ دیا جس پر بیٹھ کر وہ دانشوری کیا کرتے تھے۔ یہ تو سب ہوا ان کے ساتھ جو صحافی تھے۔ جو میڈیا مالک ہے اس کو کچھ خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ اس کے منافع میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس نے میڈیا انڈسٹری کی خراب معاشی حالت (جو کہ حقیقت میں خراب نہیں ہے) کا بہانہ بنا کر کارکن صحافیوں کو بیروزگار کیا، تنخواہوں میں کمی کی، تنخواہوں کی بروقت ادائیگی بند کردی۔

اس طرح صحافی اپنے ہی پیشے کا قیدی بند کر رہ گیا ہے۔ مالکوں نے آزادی اظہار کے نام پر مال بٹورنے کا جو سلسلہ جاری رکھا تھا اس کا تسلسل برقرار ہے۔

کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے آزادی اظہار اور آزادی صحافت انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر میر شکیل الرحمن سمیت دیگر میڈیا مالک چاہتے ہیں کہ صحافت واقعی آزاد ہوجائے تو انہیں سب سے پہلے صحافی کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہوگا۔ پسند و ناپسند کہ جگہ پیشہ وارانہ انداز اپنانا ہوگا بصورت دیگر صحافت کی آزادی ایک نعرے کے طور پر تو استعمال ہوتی رہے گی لیکن یہ آزادی حقیقت میں کبھی نصیب نہیں ہوسکے گی۔

میڈیا مالکان کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ اگر آج میر شکیل گرفتار ہے تو اگلی باری ان کی بھی آئے گی کیونکہ اس بار کوئی صحافی صحافت کو آزاد کروانے کے نام پر قید ہونے کو تیار نہیں۔

Gohar Butt
+ posts

گوہر بٹ عرصہ تیس سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ پاکستان کے اہم اخبارات اور نیوز چینلز میں صحافتی فرائض ادا کرچکے ہیں۔