عدنان عامر
ترجمہ: ابرار احمد
26 جون کو ڈپٹی کمشنر مستونگ نے اپنی نوعیت کا اہم اقدام اٹھاتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن کے تحت چار سو کے قریب بوگس لوکل ڈومیسائل منسوخ کردیئے ڈپٹی کمشنر مستونگ محبوب احمد کے مطابق مذکورہ ملازمین بلوچستان کے کوٹہ پر مختلف وفاقی محکموں میں تعینات ہیں جنہیں بارہا سرٹیفکیٹس کی پڑتال کیلئے نوٹسز بھیجے گئے مگر کوئی جواب موصول نہیں ہونے کی وجہ سے ان کے لوکل ڈومیسائل منسوخ کرکے رپورٹ صوبائی حکومت و دیگر حکام کو مزید کارروائی کیلئے بھجوادی گئی ہے۔ مذکورہ خبر جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اسے بے پناہ پذیرائی ملی اور صارفین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسی طرح دیگر اضلاع سے حاصل کئے گئے جعلی سرٹیفکیٹس ہولڈرز کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
وفاقی محکموں میں بلوچستان کیلئے چھ فیصد کوٹہ مختص ہے مگر بدقسمتی سے اس پر عملدرآمد نہیں کیاجارہا۔ مختلف سیاسی جماعتیں یہاں تک کہ حکومتی اتحادی اور سوشل میڈیا صارفین وقتاً فوقتاً اس حوالے سے احتجاج کرچکے ہیں کہ کوٹہ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے سمیت غیر مقامی افراد کی جانب سے حاصل کردہ لوکل ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرکے اسکے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
یہ مسئلہ مارچ 2019ء کو اس وقت اجاگر ہوا جب گورنر بلوچستان نے تمام اضلاع کے ضلعی انتظامی افسران کو مختلف وفاقی محکموں میں بلوچستان کے کوٹہ پر تعینات ملازمین کی لسٹ بھجوائی اور انہیں ہدایات کی گئیں کہ مذکورہ ملازمین کے سرٹیفکیٹس کی جانچ پڑتال کی جائے۔
ڈی سی مستونگ محبوب احمد کے مطابق انہیں 744 ملازمین کی لسٹ موصول ہوئی اس حوالے سے انہوں نے اخبارات میں چار دفعہ نوٹسز شائع کروائے اور مذکورہ ملازمین کو ہدایت کی گئی کہ وہ ڈی سی آفس آکر اپنے سرٹیفکیٹس کی جانچ پڑتال کروائیں۔ محبوب احمد کے مطابق 744 میں سے صرف 344 ملازمین نے ڈی سی آفس آکر اپنے سرٹیفکیٹس کی جانچ پڑتال مکمل کروائی جسکے بعد بقیہ 400 ملازمین کے لوکل ڈومیسائل سرٹیفکیٹس منسوخ کرنے پڑے۔
بلوچستان کے کوٹہ پر اس وقت وفاقی محکموں میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین ہیں۔ اگر صرف چار سو بوگس سرٹیفکیٹس مستونگ جیسے چھوٹے اور کم آبادی والے ضلع سے حاصل کئے گئے ہیں تو دیگر اضلاع کی کیا صورتحال ہوگی؟ جوکہ صورتحال کو مزید تشویشناک بناتا ہے۔ مستونگ سے منسوخ شدہ چار سو سرٹیفکیٹس آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں کیونکہ اس وقت بلوچستان میں 33 اضلاع ہیں اور تقریباً ہر ضلع سے مختلف ادوار میں ذاتی و رشتہ داری اثر و رسوخ استعمال کرکے بوگس سرٹیفکیٹس حاصل کئے گئے ہیں۔
جعلی لوکل ڈومیسائل کا مسئلہ بلوچستان میں بہت پرانا ہے۔ ماضی میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات رہنے والے دیگر صوبوں کے افسران نے اپنے عزیز و اقارب کو یہاں سے سرٹیفکیٹس جاری کروائے جسکے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں سندھ، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور گلگت بلتستان سمیت دیگر علاقوں میں رہنے والوں نے یہاں سے بوگس سرٹیفکیٹس حاصل کئے جہاں اعلیٰ افسران اس حوالے سے کوتاہی کے مرتکب ہوئے وہاں ہی یہاں کے مقامی مشران و معززین نے بھی مبینہ ذاتی فوائد کے عیوض جعلی سرٹیفکیٹس کے اجرا میں تعاون کیا۔
دیگر صوبوں کے طلبہ اور نوجوانوں نے یہاں کے سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر مختلف ملکی و بین الاقوامی سکالرشپس حاصل کیں کیونکہ بلوچستان کے کوٹہ پر تعیناتی اتنی مشکل نہیں جتنی کہ پنجاب یا خیبر پختونخوا کی ہے۔ وہاں کا تعلیمی معیار و نظام بلوچستان کی بہ نسبت نہ صرف کافی بہتر بلکہ وہاں طلبہ کے مابین مقابلہ زیادہ سخت ہے۔ دیگر صوبوں کے طلبہ بلوچستان کے بوگس سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر فوائد سے مستفید ہورہے ہیں جبکہ یہاں کے پڑھے لکھے طلبہ اس حوالے سے محرومیوں کا شکار ہیں۔
یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ کئی سال پرانا ہے مگر اس میں شدت پانچ سال قبل آئی۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر میر کبیر محمد شہی نے ایوان بالا میں آواز اٹھائی جسکے بعد وفاقی حکومت نے اس حوالے سے مسئلے کی مکمل تحقیقات کی اور یقین دہانی کرائی۔ مذکورہ ناانصافی کیخلاف صوبے کے نوجوانوں، مختلف سماجی شخصیات، سوشل میڈیا کارکنان اور رضاکاروں نے معروف سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر باقاعدہ مہم ”بلوچستان بوگس ڈومیسائل کو مسترد کرتا ہے“ ’#BalochistanRejectsBogusDomiciles‘ چلائی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ صوبے کے ساتھ رو ا رکھی جانے والی ناانصافی کافی الفور ازالہ کرے۔ اس مہم کو نہ صرف سیاسی و حکومتی سطح پر پذیرائی ملی بلکہ مسئلہ سوشل اور مقامی میڈیا کے ذریعے اجاگر ہونے کے بعد حکومتی سطح اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے اس حوالے سے مکمل تحقیقات اور ذمہ داروں کیخلاف عملی کارروائی کی یقینی دہانی بھی کرائی گئی۔
سوشل میڈیا مہم کے بعد وزیراعظم آفس نے مذکورہ ناانصافی کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی محکموں کو مراسلہ ارسال کیا کہ بلوچستان کے چھ فیصد کوٹہ پر من و عن عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ مذکورہ عمل کو سیاسی و سماجی حلقوں نے سراہا مگر کارروائی تب تک قابل عمل اور ناانصافیوں کا مداوا نہیں کرسکتی تاوقتیکہ تمام جاری شدہ بوگس لوکل ڈومیسائل منسوخ کرکے امیدواروں کے ساتھ انکے سہولت کاروں کیخلاف بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
صوبہ کے دیگر ضلعی انتظامی افسران کو بھی ڈی سی مستونگ کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر اس حوالے سے سنجیدگی اور مخلصی سے کارروائی کی جائے تو یہ سارا عمل ایک ماہ سے بھی کم مدت میں مکمل کیاجاسکتا ہے۔
سماجی حلقے اس حوالے سے حکومتی کارروائی کے منتظر ہیں اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔