عمارہ ضیا خان
مولانا آپ نے میڈیا سے تو معافی مانگ لی۔ شاید ان کے جھوٹے ہونے بارے آپ نے جو سچ بولا، اس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہو، اس لئے آپ نے معافی مانگ لی… مگر جو زہر آپ نے اس قوم کے بارے میں اُگلا اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
مولانا! وہ کروڑوں مزدور اور محنت کش جو اپنا خون پسینہ ایک کر کے بھی مشکل سے ہی دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں وہ بھی اسی قوم کا حصہ ہیں اور وہ لاکھوں لوگ جو مفلسی اور بے بسی میں مسلسل پس رہے ہیں وہ بھی اسی قوم کا حصہ ہیں، جن کو آپ نے بددیانت، بداخلاق، دھوکے باز اور بے حیا قرار دیا ہے۔ ان کروڑوں لوگوں کی بھی تو دل آزاری ہوئی۔ ان سے معافی مانگنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
تا دم تحریر بے تحاشہ محققین اور سائنسدان دن رات ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کوئی ویکسین تیار کرسکیں تا کہ اس وبا سے جلد از جلد نمٹا جا سکے۔ میں سوچتی ہوں: آپ نے یہ دعویٰ کس بنیاد پر کر دیا کہ کوئی ویکسین اس وباسے نمٹ نہیں سکتی۔ یہ بات کہہ کر آپ نے ”تحقیق“ اور ”کوشش“ پر جو وار کیا ہے اس کا مقصد موجودہ حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ چین اور ینوزی لینڈ تو یہ دعویٰ کرنے لگے ہیں کہ انہوں نے اس وبا پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ اس کے باوجود آپ اگر بضد ہیں کہ انسانی کاوش بے معنی ہے تو مقصد حکومتی نالائقی کی پردہ پوشی کے سوا کچھ نہیں۔
اب تحقیق کی کیا اہمیت ہے یا انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے جیسی باتیں ایک مذہبی عالم کو میں بتاتی ہوئی اچھی نہیں لگتی مگر جو طمانچہ آپ نے محققین کے منہ پر مارا ہے، اس کے بعد آپ پر لازم ہے کہ جب یہ ویکسین آ جائے تو اس سے پرہیز کریں یا پھر کرو نا کی ویکسین استعمال کرنے سے پہلے ان سائنسدانوں سے بھی معافی مانگیں جو اس کی تیاری میں لگے رہے۔
مولانا! آخر میں التجا ہے کہ اب جب آ پ دعا کریں تو کوشش کریں کہ دعا ہی ہو، کردار کشی، باعثِ دل آزاری اور مبالغہ آرائی نہ ہو۔