پاکستان

فتنہ احسانیہ: مسئلے کی جڑ نصاب میں ہے

ابن شعور

سابق طالبان ترجمان احسان اللہ احسان کا ایجنسیوں کی قید سے فرار کے بعد ایک اور ویڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔

اس پیغام کے پہلے حصے میں وہ اپنے فرار کی کامیاب منصوبہ بندی اور خفیہ ایجنسیوں کی نااہلی کا ذکر کرتا ہے لیکن عوام کے لئے یہ جاننا اتنا اہم نہیں کہ احسان اللہ احسان کیسے بھاگا۔ اہم بات یہ سمجھنا ہے کہ اسلامیات کے نصاب میں کیا مسئلہ ہے کہ اس سے احسان اللہ احسان پیدا ہوا۔

احسان اللہ احسان نے 2007ء میں چارسدہ کالج سے اسلامیات اختیاری کے ساتھ بی اے کیا تھا۔ اس کے بعد مفتی نظام الدین شامزئی کے گیارہ ستمبر بارے دئیے گئے فتوے پر عمل کرنے کے لئے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر کے اپنے دامن کو پاکستانیوں کے خون سے رنگ لیا۔

پاکستان میں آزادی کے بعد سے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون پڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس مضمون میں صرف ایک مسلک کی تعلیمات سکھائی جاتی رہی ہیں اور پاکستان کے گوناگوں مسالک و مذاہب کا ذکر نہ کر کے غیر مستقیم طور پر ان کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔

اس نصاب کو پڑھنے والا بچہ جب سالہا سال کی برین واشنگ کے بعد ہوش کی عمر میں قدم رکھتا ہے تو وہ اپنے گرد مختلف مسالک اور ثقافتوں کو دیکھ کر ان کے خلاف زبان پر دشنام، دل میں نفرت یا ہاتھ میں ہتھیار لے کر جنگ شروع کر دیتا ہے تاکہ لوگوں کو اسلامیات کے یک رنگی نصاب کے مطابق ڈھلنے پر مجبور کر سکے۔

اس نصاب نے اب ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ آئی بی اے کراچی، لمز، جی آئی کے آئی جیسے اداروں میں بھی فسطائی سوچ اور سازشی تھیوریوں پر یقین رکھنے والے فرسٹیٹڈ نوجوان ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک قلیل تعداد آگے بڑھ کر دہشت گردوں کی تکنیکی معاونت بھی کرتی ہے اور بعض اوقات مسلح کاروائیوں میں شامل بھی ہو جاتی ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کے نسبتاً آسان محاذ پر اکثر اسلامیات زادے صرف گالیاں بکتے نظر آتے ہیں۔

ویڈیو کے دوسرے حصے میں احسان اللہ احسان ایک سرکاری محکمے پر نہایت سنگین الزام لگاتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اسے ایک ڈیتھ سکواڈ کا حصہ بننے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ مجوزہ ڈیتھ سکواڈ کی مدد سے ’غداروں‘ کو مارنا مقصود تھا۔ یاد رہے کہ یہ غدار وہ سب پاکستانی ہیں جنہیں اسلامیات کے نصاب میں جگہ نہیں ملی۔

آخر اس سرکاری محکمے کے افسر بھی بارہویں تک اسی نصاب کی زد پر رہے ہیں جس نے احسان اللہ احسان جیسوں کو جنم دیا ہے۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا ہے جب ملک کے کچھ حصوں میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے پھر سے سنائی دینے لگے ہیں۔

کیا پاکستان کا کھانے والے ادارے اسی برتن میں چھید کر رہے ہیں؟ کیا پھر سے جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کی دہشت گرد پالنے والی پالیسی اپنا لی گئی ہے؟ ایسے میں جب یکساں قومی نصاب کے نام پر اسلامیات کا ایک یک رنگی نصاب پھر سے لاگو کیا جا رہا ہے، یہ سوال معاشی مشکلات میں گھرے عوام کیلئے بہت پریشان کن ہے۔

Ibn-E-Shaoor
+ posts

ابنِ شعور سائنس کے طالبِ علم، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں۔