خبریں/تبصرے

لالہ آفریدی کے بیانئے کا بوجھ!

ربیعہ باجوہ

لطیف آفریدی (جنہیں تکریم کی وجہ سے سب لالہ پکارتے ہیں) دو روز قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوگئے۔ انہیں اس جیت پر مبارکباد۔ لالہ کی زندگی ترقی پسند مزاحمتی جدوجہد سے عبارت ہے۔ وکلا تحریک کے دوران بھی انھوں نے بطور صدر پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن وکلا کی قیادت کی اور مشرف آمریت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی حالیہ کامیابی میں ان وکلا کا ہاتھ ہے جو ماضی میں جنرل مشرف کے حمایتی اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی تھے، ان میں وکلا تحریک کے مخالف وہ دھڑے شامل ہیں جو اب ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے حامی ہیں۔

اسی طرح لالہ لطیف آفریدی کے مخالف دھڑے میں وکلا تحریک کے حمایتی اکثریت میں تھے۔ یہ وہ وکلا ہیں جو سیاسی جماعتوں کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر، کئی دہائیوں سے آئین اور جمہوریت کی بالا دستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی لوگ ہر آمریت کے خلاف وکلا کی قیادت کرتے رہے ہیں۔

لالہ آفریدی اپنی ریڈیکل سیاست میں جرات سے اپنے موقف پر قائم رہے ہیں۔ گزشہ برس، اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھی جانے والی پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) کی کھل کر حمایت کی جس کی پاداش میں ان کی جماعت اے این پی نے انھیں پارٹی سے نکال دیا لیکن انھوں نے اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

امید ہے کہ اب بھی بطور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن لالہ آفریدی وکلا کی مزاحمتی سیاست کا مان رکھیں گے۔ وکلا تحریک کے دوران بکتر بند گاڑی کی ٹکر سے ان کی ٹانگوں کو نقصان پہنچا لیکن آمریت کی بکتر بند گاڑی چلانے والوں نے آج لالہ آفریدی کا ساتھ دے کر ان کے بیانئے اور وکلا جدوجہد کو تسلیم کیا۔

یہ تو طے ہے کہ ہم ترقی پسند سوچ رکھنے والے وکلا ان کے اصولی موقف اور مزاحمتی جدوجہد کے ساتھ کھڑے ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کے حمایتی وکلا ان کی ریڈیکل سوچ اور بیانئے کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟

وکلا جدوجہد زندہ باد!

Rabbiya Bajwa
+ posts

ربیعہ باجوہ ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ہیں۔ وہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی فنانس سیکرٹری رہی ہیں اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔