ربیعہ باجوہ
تین دن قبل وائرل ہونے والی ویڈیو جس میں فردوس عاشق اعوان سیالکوٹ کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف سے بدسلوکی کرتی نظر آتی ہیں، سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس معاملے میں کچھ لوگ اس بات پر فردوس عاشق اعوان کی حمایت کر رہے ہیں کہ بیورو کریسی بھی تو عوام دشمن ہے، نوکر شاہی عام شہریوں کی تذلیل کرتی ہے اس لئے اگر کسی بیوروکریٹ کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو ہمیں کیا؟
یہ موقف اور دلیل وزن نہیں رکھتے۔
پہلی بات: اگر ایسا واقعہ بیورو کریسی کے خلاف عوامی ردعمل کے طور پر آتا تو بات اور تھی لیکن ایسا کسی عوامی نمائندے کی طرف سے کرنا جس کی سیاست کا اپنا کوئی اصول نہیں، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ملک میں قانون موجود ہے۔ کسی بھی بیوروکریٹ کے خلاف اس کے تحت کاروائی کی جا سکتی ہے۔ فردوس عاشق اعوان کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ اس لیے چاہئے تو یہ تھا کہ اگر اسسٹنٹ کمشنر قصوروار ہے تو تھرو پراپر چینل قانونی کارروائی کا آغاز کیا جاتا۔
دوم: فردوس عاشق اعوان کا تعلق مختلف حکمران جماعتوں سے رہا ہے۔ کیا بیوروکریسی میں اصلاحات کے لئے انہوں نے کوئی کوشش کی، کوئی قانون سازی یا کسی ترمیم کے لئے کوئی مہم چلائی ہو؟ یا کیا کبھی فردوس عاشق اعوان نے اس طرح کا سوال اپنی حکومت یا وزیراعظم سے کیا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کیوں پریشان ہیں؟
سوم: حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ بیوروکریسی میں اصلاحات کا نہیں، عوام کو چکر دینے کا ہے۔ یہ میڈیا مینجمنٹ کا معاملہ ہے۔ ایسے سیاستدان جانتے ہیں کہ کیمرے کے سامنے کئے گئے سیاسی سٹنٹ عوام کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ کسی جھوٹے سچے اقدام کے ذریعے اپنی عوام دوستی کی مثال قائم کرو اور کارکردگی کی بجائے، میڈیا کی مدد سے ساکھ بناؤ۔
میرے خیال میں فردوس عاشق اعوان کا رویہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔
اؤل: یہ رویے غلامانہ ذہنیت کے عکاس ہیں جہاں ہر سطح پر اپنے سے نسبتاً کم رتبے، سماجی عہدے، اسٹیٹس، رنگ، نسل، ذات اور اقلیتی مذہب کے افراد کے ساتھ اسی بد تہذیبی اور تضحیک کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اپنے سے طاقتور لوگوں کی خوشامد اور غلامی کی جاتی ہے۔ بالخصوص فردوس عاشق اعوان کی محض یہ ہی ’سیاست‘ ہے۔ وہ طاقتور حلقوں کی غلامی کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتی ہیں۔ شیخ رشید کی طرح نہ انھیں اپنی عزت نفس کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے نہ کسی دوسرے کی عزت نفس کا احترام۔
دوم: اس مسئلے پر بعض ترقی پسند افراد کا فردوس عاشق اعوان کی حمایت کرنا تو بالکل ہی سمجھ سے بالا تر ہے۔ بطور ترقی پسند ہم اس بات کے قائل ہیں کہ کسی کی بھی ہتک نہ کی جائے۔ ہر شہری کی عزت نفس اور احترام کو برابر اہمیت دی جائے۔ نوکر شاہی شہریوں کی تذلیل کرے یا کوئی فردوس عاشق اعوان جیسا سیاستدان ماتحت افسران کی تذلیل کرے، غلط ہے۔ ہم معاشرے سے تذلیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ اگر کہیں پر کچھ غلط ہو رہا ہے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جائے اور قانون پر عمل درآمد کراتے ہوئے بھی اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی کی توہین یا ہتک نہیں ہو رہی۔ انسانی وقار کی تکریم انسانی حقوق کا حرف اؤل ہے۔