ربیعہ باجوہ
خواتین اور بچوں کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم انتہائی افسوس ناک ہیں۔ ان جرائم میں جو شدت، وحشت اور بربریت پاکستانی معاشرے میں سامنے آ رہی ہے وہ انتہائی تشویش کا سبب ہے۔ یہ صورت حال بنیادی طور پر تین عوامل کو ظاہر کرتی ہے: فرسٹیشن اور منافقانہ رویے، وحشیانہ سوچ اور درندگی جو معاشرتی اقدار کا حصہ بن چکی ہے۔
جس سماج میں عورت کو بلا چون و چرا آدھا انسان تسلیم کر لیا جائے، مرد کی حاکمیت پر سماج کی بنیاد ہو اور عورت کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو مذہبی جنونیت اور ریاستی سر پر ستی سے کچلنا ریاستی ذمہ داری سمجھا جائے وہاں خواتین پر تشدد، ان کے خلاف جنسی جرائم اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کونہیں روکا جا سکتا ہے۔
پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی خواتین کے حق میں قانون سازی کی گئی تو نام نہاد مذہبی حلقوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ مثال کے طور پر جب مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961ء کا اجرا ہوا تو بہت سی شقوں کو خلاف شریعت قرار دیا گیا بلکہ انھیں عدالتوں میں چیلنج بھی کیا گیا۔
ضیا آمریت کے دوران ’اسلامائزیشن‘ کے نام پر حدود قوانین کے ذریعے خواتین کا بدترین استحصال کیا گیا۔ یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
جب 2016ء میں پنجاب اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی کی گئی تو قدامت پسند حلقوں نے اسے بھی مذہبی روایات کے خلاف قرار دے کر اسکی مخالفت کی۔ آج 2021ء میں بھی جب گھریلو اور بچوں پر تشدد کے خلاف قوانین بنانے کی کوشش کی گئی تو اسے مذہبی اور مشرقی روایات کے خلاف قرار دیکر ان کا راستہ روکا گیا۔
اس تمام صورت حال میں اسلامی نظریاتی کونسل کا عورت مخالف کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خواتین کے خلاف جب بھی کوئی وحشیانہ واقعہ سامنے آتا ہے (عموماً سوشل میڈیا کی مدد سے) تو اس کی مذمت کی بجائے مختلف رجعتی تاویلات کے ذریعے ایک متوازی بیانیہ کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس بیانئے کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن اکاؤنٹس سے وکٹم بلیمنگ کی جاتی ہے وہ عموماً ریاست کے پروردہ، عورت مخالف بیانئے پر یقین رکھنے والے ذہنی بیمار، ایسے فیک اکاؤنٹس ہیں جو کہ مخصوص سوچ کو پھیلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
اسی طرح مین سٹریم میڈیا پر خلیل الرحمن قمر جیسے مادر پدر آزاد، بد زبان اور بد تہذیب افراد یا شدت پسند حلقوں کا سہارا لے کر خواتین کے حق میں بات کرنے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یا انھیں متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی تحریک کی انتہائی منفی تشریح کی جاتی ہے۔ ان تمام ’کاوشوں‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی عورت پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو چکی ہے۔
حالیہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم میں وحشت اور بربریت کے ہولناک دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ اب قبروں میں خواتین کی نعش بھی محفوظ نہیں۔ حالیہ دنوں میں نور مقدم کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے: مقتولہ کا سر تن سے جدا کر دینا عورت دشمن رویوں کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اسی طرح اگر مختلف واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں ایک طرف شہریوں اور انسانیت پر یقین رکھنے والوں کی طرف سے مجرموں کو قانون کے مطابق سخت سزا کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہیں ان انسان دشمن افراد کی تعداد بھی کم نہیں جو ہلاک ہونے والی خواتین کی کردار کشی کرتے ہیں۔
وہ اپنی بیمار ذہنیت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ وہ وہاں گئی کیوں تھی؟ اس نے لباس کیوں مناسب نہیں پہناتھا؟ عورت گھر سے نکلی کیوں وغیرہ وغیرہ۔
اسکے برعکس، جب مدرسے کا مولوی بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے پکڑا جائے، تب ان تمام بیمار ذہنوں کے منہ پر تالے لگ جاتے ہیں۔ جب مذہبی رہنما ماڈل یا ٹک ٹاکرز خواتین کے ساتھ میل جول رکھیں تو منافقانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
جب خواتین کی نعشوں کی بے حرمتی ہوتی ہے تو ان ’ناقدین‘ کی مذہبی اور مشرقی اخلاقیات پر زد نہیں پڑتی۔ یہ افراد ایسے لا تعلق ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
جب ایک برس کی عمر کی معصوم بچیوں سے لیکر گھر میں مقید پردہ دار خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے، تب یہ رجعتی درندے آواز نہیں اٹھاتے۔
یہ منافقت اور ذہنی بے راہ روی اب معاشرے کے عموی شعور کا خاصہ بن چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کے خلاف جرائم میں برابر کی حصہ دار ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہی مذہبی ٹھیکیدار کہتے تھے کہ کیمرہ غیر اسلامی ایجاد ہے۔ اب اسی کیمرے کے سامے بیٹھ کر عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کو غیر اسلامی اور مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں (جبکہ عموماً اپنا پورا خاندان مغرب میں مقیم ہوتا ہے اور خود بڑے فخر سے سال کے دو چار چکر انہیں ممالک کے لگاتے ہیں جو ان کی خواتین کی ’بے راہ روی‘ کے ذمہ دار ہیں)۔