نقطہ نظر

’کرونا بحران کے بعد دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا اسلحہ بنانا ہے یا ہسپتال‘

ٹونی عثمان

ایک ائر ہوسٹس، ایک ویٹ لیفٹر، سابقہ تھائی باکسر، نسل پرستی کی مخالفت میں سر گرم اور حقوقِ نسواں کے لئے سرگرداں صوفیہ رانا کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ اوسلو سے منتخب ہونے والی ایک مارکس وادی کونسلر بھی ہیں۔

وہ ناروے کے ایک چھوٹے سے شہر مولدے میں پیدا ہوئیں۔ تین سال کی تھیں کہ ان کا خاندان ناروے کے دارلحکومت اوسلو منتقل ہو گیا۔ ان کی پرورش اوسلو میں ہوئی اور یہیں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے انہوں نے اسکینڈے نیویا کی فضائی کمپنی ایس اے ایس (SAS) میں جز وقتی ملازمت شروع کر دی۔ 2010ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی کمپنی میں کل وقتی ملازمت کرنے لگیں۔ جب انہوں نے سوشل ڈمپنگ کی روایت کو دیکھا تو انہوں نے ملازمین کے حقوق کی جدوجہد شروع کر دی۔ یوں وہ ٹریڈ یونین میں فعال ہو گئیں۔

گذشتہ سال انہوں نے ناروے کی مارکس وادی سیاسی جماعت ریڈ پارٹی (Red Party) کی جانب سے بلدیاتی انتخاب لڑا اور اوسلو سٹی کونسل کی رکن منتخب ہو گئیں۔ اس سال یکم مارچ سے وہ کل وقتی سیاستدان بن گئی ہیں۔ ان کا یہ انٹرویو قارئین جدوجہد کے لئے کیا گیا۔ انٹرویو سے قبل قارئین جدوجہد کے لئے ان کی پارٹی کا مختصر تعارف بھی دلچسپی کا باعث ہو گا۔

ریڈ پارٹی کی بنیاد 2007ء میں رکھی گئی۔ 2017ء کے انتخابات میں اس نے پہلی بار قومی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کی۔ اس اکلوتی نشست کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جب مارچ 2018ء میں اس جماعت کے رکن اسمبلی نے اس وقت کی انتہائی دائیں بازو کی وزیر انصاف سیلوی لیستہاوگ کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تو تحریک آنے سے قبل ہی وزیر انصاف نے استعفیٰ دے دیا۔ ریڈ پارٹی کا موقف ہے کہ عدم مساوات جمہوریت اور لوگوں کے مابین اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔ بڑی جماعتیں عدم مساوات کم کرنے بارے کچھ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پارٹی کے مطابق روایتی جماعتیں فلاحی نظام کو پامال کر رہی ہیں جو کہ سیاسی ناکامی کی علامت ہے اور اس وجہ سے جمہوریت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پارٹی کا سیاسی منصوبہ محض حکومت میں تبدیلی نہیں بلکہ ایک سیاسی انقلاب ہے تاہم ریڈ پارٹی مسلح انقلاب کی حمایت نہیں کرتی بلکہ جمہوری انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو ختم کرنے کی بات کرتی ہے۔ پارٹی کے 38 سالہ سربراہ بیعور نارموکسنیس نہ صرف اپنی صفوں میں مقبول ہیں بلکہ ان کے حریف بھی انہیں احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

انٹرویو سے اقتباسات

جدوجہد: آپ ریڈ پارٹی میں کب اور کیوں شامل ہوئیں؟

صوفیہ رانا: میرے والدین ہمیشہ آربائیدر پارٹی (ناروے کی لیبر پارٹی) کو ہی ووٹ دیتے تھے۔ میں نے البتہ محسوس کیا کہ لیبر پارٹی رفتہ رفتہ مزدوروں کی بجائے سرمایہ داروں کا تحفظ کرنے لگی تھی اور ترقی پسند سوچ سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اس لئے میں ریڈ پارٹی کی ووٹر بنی اور 2014ء میں اس کی رکن بن گئی۔

جدوجہد: آپ نے جماعتی سیاست کا آغاز اتنی چھوٹی اور غیر روایتی جماعت سے کیا جس کا اقتدار میں آنا نا ممکن لگتا ہے۔ کیا آپ کو اقتدار میں کوئی کشش نہیں لگتی؟

صوفیہ رانا: میرے لئے سیاست ایک مشن ہے۔ پیسے کمانے اور طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں۔ چھوٹی پارٹی میں شامل ہونے سے آپ اپنے اصولوں اور اپنے فلسفے پر قائم رہ سکتے ہیں۔ بڑی جماعتوں میں آپ کو مصلحت یا منافقت کرتے ہوئے پارٹی منشور کے ان حصوں کو بھی ہضم کرنا پڑتا ہے جو آپ کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے۔ میں ایک مزدور ہوں۔ نسل پرستی سے پاک معاشرہ اور حقوقِ نسواں میرے لئے بہت اہم ہیں۔ میں سامراجیت، جنگی جنون اور اسلحے کے کاروبار کے خلاف ہوں۔ اس لئے میرے لئے ریڈ پارٹی سب سے زیادہ موزوں ہے۔

جدوجہد: اگر آپ جنگی جنون کی بات کر رہی ہیں تو پھر آپ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا ناروے کبھی ناٹو کی رکنیت چھوڑے گا؟

صوفیہ رانا: ناٹو کا رُکن ہونے سے ایک تحفظ کا احساس محسوس کیا جاتا ہے مگر یہ احساسِ تحفظ جعلی ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ جدھر بھی نظر دوڑائیں آپ کو ناٹو اور امریکہ کا جنگی جنون نظر آئے گا۔ یہ جنگی جنون روس کا پیدا کردہ نہیں۔ ناروے کو جنگی جنون سے دور رہنا چاہئے اور ناٹو کی رکنیت چھوڑ دینی چاہئے مگر میرے خیال میں ناروے جعلی تحفظ کو ترجیح دیتے ہوئے ناٹو میں ہی رہے گا۔

جدوجہد: پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟

صوفیہ رانا: پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں کچھ ترقی پسند اصلاحات ہوئیں۔ ایک روشن خیال سوچ کو اہمیت ملی مگر سرد جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ایک قدامت پسند اور مذہبی جنونی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ سیاسی کلچر اور جمہوری ادارے تباہ کر دئے۔ اس دور کے نقصانات کا بوجھ پاکستانی عوام آج بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسی سماجی تحریک کی ضرورت ہے جو عوام میں سے اٹھے۔ خیرات اور ایڈہاک بنیادوں پر ایک مضبوط معاشرہ نہیں بن سکتا۔

جدوجہد: کچھ عرصہ پہلے آپ نے اپنے ایک مضمون میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ناروے کو اس مسئلے کے حل کے لئے اپناکردار ادا کرنا چاہئے۔ ناروے یہ کردار کیسے ادا کر سکتا ہے؟

صوفیہ رانا: اگر ناروے امن پسند ملک والی پہچان برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ہندوستان کو اسلحہ فروخت کرنا بند کرے۔ کشمیر پر جب بھی بات ہوتی ہے تو ہمیں ہندوستان اور پاکستان کا موقف بتایا جاتا ہے۔ کشمیریوں کے موقف کی بات کم ہی کی جاتی ہے۔ اس مسئلے کا حل کشمیریوں کی رائے جانے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ناروے کشمیریوں کی رائے سامنے لانے میں مدد کر سکتا ہے۔

جدوجہد: آ ج کل کرونا وائرس کی وبا نے ساری دنیا کو اپنی جکڑ میں لے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی دوری برقرار رکھنے کے لئے ہم یہ انٹرویو ٹیلی فون پر کر رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں جب وائرس سے پیدا ہونے والا بحران ختم ہو جائے گا تو یہ دنیا کیسی ہو گی؟

صوفیہ رانا: میں امید کرتی ہوں کہ لوگوں میں یکجہتی اور مساوات کے لئے بیداری پیدا ہو گی۔ سڑکوں پر ٹریفک کے علاوہ فضائی ٹریفک میں کمی ہونے کی وجہ سے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین کے بعض علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آسمان نظر نہیں آتا تھا۔ وہاں اب آسمان نظر آنے لگا ہے۔ ممکن ہے کہ لوگ یہ سوچیں کہ دنیا ایک کشتی ہے اور جب یہ ڈوبے گی تو سب ڈوبیں گے۔ اس لئے اب سب کو اس دنیا کو بہتر اور مضبوط بنانے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ ساری دنیا کو اب یہ سوچنا پڑے گا کہ اسلحہ تیار کرنے کی بجائے صحت پر کام ہونا چاہئے۔

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔