نقطہ نظر

امریکہ میں گھس بیٹھ کرنے والے کیوبا کے رئیل لائف جیمز بانڈ

ارنٹا ٹراڈو، سمن ووزقیوز

ترجمہ: ایف ایس

نیٹ فلیکس پر ایسی فلم کا ملنا حیرت انگیز ہے جس میں کیوبن ایجنٹوں کو میامی کے جلا وطن اور دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے فدائین کو دہشتگرد کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔ ”واسپ نیٹ ورک“ ایسی ہی سنجیدہ پیشکش ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح 1990ء کی دہائی میں کیوبنز نے امریکی شہر میامی میں متحرک کیوبن حزب اختلاف کے پرتشدد حملوں کی مزاحمت کی۔

عام طور پر فلم کی اہمیت کا تعلق اس کے فنی معیار سے کم اور اس کے سیاسی پیغام سے زیادہ ہوتا ہے۔ ”واسپ نیٹ ورک“ کے متعلق حقیقتاً ایسا ہی ہے، کیوبن جاسوسوں پربننے والی یہ فلم جون میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے کے بعد سے ہی زیر بحث ہے۔

کیوبا کی تصویر کشی کرنے والی اس فلم پر کمیونسٹ مخالفوں نے سخت تنقید کی۔ کاسترو نواز فلم کواس کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے سے ”واسپ نیٹ ورک“ کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے پلیٹ فارم پر ریلیز کا مطلب ہے کہ کیوبا سے متعلق مغربی فلم بینوں کی بڑے پیمانے پر ذہن سازی کی جا سکتی ہے۔

یہ کمرشل سنیما کے فلم بینوں کو متاثر کرتی ہے جو کبھی بھی اس موضوع پر ایسی فلم نہیں دیکھتے جو واضح طور پر ”سیاسی نوعیت“ کی ہو۔ صرف اسی بنیاد پر ایسا لگتا ہے جیسے کیوبا کے انقلاب کا کامیاب دفاع کیا گیا ہو۔ گویا یہ ایسی فلم ہے جو انقلابی نوعیت کی تو نہیں مگر اس نے انقلاب کا دفاع خوب کیا۔ چلیں دیکھتے ہیں یہ کیسے کیا گیا۔

برازیل کے مصنف فرنینڈو مورس کی کتاب ”سرد جنگ کے آخری سپاہی“ پر مبنی اس فلم کا محور کیوبا کی خفیہ سروس کا یونٹ واسپ نیٹ ورک ہے جو کیوبن حکومت کی مخالف ان پْرتشدد تنظیموں میں گھس بیٹھ کے لئے تیار کیا گیا ہے جو میامی سے کیوبا پر حملے کرتی ہیں۔

میامی میں موجود ان گروہوں نے نہ صرف امریکی سیاست میں ایک طاقتور لابی کی حیثیت سے کام کیا بلکہ کیوبا کے خلاف بھی دہشت گردی کے مرتکب ہوئے۔ کیوبا کے اعداد و شمار کے مطابق 1959ء سے 1999ء کے دوران ایسے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں 234 بے گناہ افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔

ایکشن تھرلر کی شکل اختیار کرتے ہوئے اس فلم میں ہمیں کیوبا کے ایجنٹوں کی کہانی سنائی گئی ہے جنہوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ابتدائی مشکل برسوں میں کیوبا کو غیر مستحکم کرنے والے دہشت گرد گروہوں میں گھسنے کے لئے کاسترو حکومت کے دشمن ہونے کا روپ دھار لیا۔

ان برسوں کو جو ”خصوصی ادوار“ کے نام سے جانا جاتا ہے، کیوبا کی معیشت کو مشرقی بلاک کی حمایت کے خاتمے کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا اور کیوبا کی تیزی سے زوال پاتی شرح نمو کو سنبھالنے کیلئے سیاحتی شعبے کی طرف متوجہ ہونا پڑا تا کہ غیر ملکی کرنسی ملک میں آ سکے۔ سرمایہ داروں کی حامی، میامی اپوزیشن نے پرتشدد حملوں سے سیاحت کے بنیادی ڈھانچے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جس کا مقصد سیاحوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔ دہشت گردوں کا مقصد اس نظام کو ختم کرنا تھا جو سوشلسٹ کیمپ کے بیشتر حصے کے برعکس کیوبا میں کمیونسٹ پارٹی (پی سی سی) کی استقامت اور عوام میں انقلاب کی جڑیں گہری ہونے کی بدولت قائم تھا۔

”واسپ نیٹ ورک“ بین الاقوامی مشترکہ پروڈکشن کے تحت فرانسیسی فلم ساز اولیور آسیاس کی ہدایت کاری میں تیار ہوئی، جو 2012ء میں سیاسی تھیم پر بننے والی فلم ”سم تھنگ ان دی ایئر“ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ مئی 68ء میں فرانس میں آنے والے سیاسی جھٹکوں پر فلمائی گئی یہ فلم وینس فلم فیسٹیول میں بہترین اسکرین پلے کا اویسلا ڈی او آر ایوارڈ جیت چکی ہے۔ وینزویلا کے معروف گوریلا فائٹر ایلِچ رامریز پر 2010ء میں بنائی گئی فلم ”کارلوس“ بھی اولیور کی پہچان ہے۔

”واسپ نیٹ ورک“ میں معروف ادکار جلوہ گر ہیں۔ پینلپ کروز، ایڈگر راماریز (جنہوں نے کارلوس میں بھی اداکاری کی تھی)، ویگنر مانیبو ڈا مورا (امریکی ڈرامہ سیریز ’نارکوس‘ میں پابلوا سکوبار کا کردار کرنے والے) اور گیل گارسیا برنال اس فلم میں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض اداکار اس سے قبل سیاسی تھیم پر بننے والی فلموں میں کام چکے ہیں (مثال کے طور پر گارسیا برنال نے 2004ء میں ”موٹرسائیکل ڈائری“ سے ماخوذ فلم میں چی گویرا کا کردار نبھایا تھا، 2012ء کی فلم ”نو“ میں انہوں نے کا مرکزی کردار ادا کیا جو چلی کے ڈکٹیٹر آگسٹو پنوشے کے خلاف کامیاب مہم کے بارے میں تھی)، یہ اداکار عسکریت پسندی پر بننے والی فلمیں نہ دیکھنے والے عام فلم بینوں کیلئے جانے پہچانے ہیں۔

فرسودگی کا مقابلہ

شروع سے ہی یہ فلم ہمارے پہلے سے قائم شدہ خیالات (یا کم سے کم تسلط شدہ خیالات) کے ساتھ چلتی ہے۔ ابتدا میں مرکزی کرداروں کو سوشلزم کے حقیقی مخالفین کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے جو اپنی ذاتی مفادات کے حصول کیلئے کیوبا سے بھاگ آئے ہیں۔

تاہم جلد ہی یہ سازش بے نقاب ہونا شروع ہو جاتی ہے، جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، میامی حزب اختلاف کی طرف سے کیے جانے والے غیر انسانی اقدامات، سرمایہ داروں کے حامیوں کے اصل دلائل اور وہ واحد وجہ جس کے لئے اہم کردار جدوجہد کر رہے ہیں، واضح ہونے لگتے ہیں۔

فلم کی پیشکش کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی کسی بھی ہالی وڈ فلم کی ہوتی ہے اور یہ عام فلم بینوں کے معیار کے مطابق بنائی گئی ہے۔ یہ فلم بطور خاص فلم بینوں کے مطالبے پر نہیں بنائی گئی۔ اسے دیکھنے کے لئے تاریخ کا علم بھی ضروری نہیں، تاہم بعض لوگ ایسی نایاب فلم دیکھتے ہوئے حیرت زدہ رہ جائیں گے جو میامی میں کیوبا کی جلاوطنی کی سیاست کا اصل چہرہ دکھاتی ہے۔ اس میں کیوبا کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں کی مالی اعانت، انہیں بچانے اور ان کی مدد کرنے کی مکمل ذمہ داری امریکہ پر نہیں ڈالی گئی (مثال کے طور پر اس فلم میں لوئس پوسڈا کیریلس کو دکھایا گیا جس نے 1976ء میں ایک کیوبن طیارے میں بم نصب کرکے تریسٹھ افراد کی زندگیاں ختم کیں، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا)۔

اس کے باوجود ”واسپ نیٹ ورک“ نے عدم استحکام اور دہشت گردی کو موثر انداز میں اجاگر کیا جس کا کیوبن انقلاب نے شروع ہی سے سامنا کیا۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا نظریہ ہے جو متعدد دہائیوں سے تسلط زدہ میڈیا میں پیش کیا گیا جس کے مطابق جلاوطن کیوبنز ”خونی آمریت“ کے ظلم و ستم کا شکار بنے۔

فلم کے شروع سے ہی یہ واضح ہو جاتا کہ ”واسپ نیٹ ورک“ کیوبا کے کمیونزم کا دفاع نہیں ہے۔ فلم کے افتتاحی بیانئے میں ”سفاکانہ“ امریکی پابندی کے ساتھ ”کمیونسٹ نظام“، کیوبا کی ”آمرانہ ریاست سے فرار“ اور ”آزاد کیوبا“ کیلئے لڑائی جیسے سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس سے ظاہر ہے کیمونسٹوں کی ہمدردی حاصل نہیں کی جا سکتی لیکن فلم نے ایک الگ ملکی تشخص پیش کیا، اس میں کیوبن ایجنٹوں کو بہادر شخصیات کے طور پر پیش کیا گیا جو اپنے مقصد کی سچائی اور وقار کے قائل ہیں اور اجتماعی مقصد کے دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

یہاں تک کہ اس میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے جو واقعتاً عام ڈگر سے ہٹ کر ہے، جیسے یہ تخریب کارانہ خیال کہ سرمایہ دارانہ نظام انفرادیت کوابھارتا ہے جبکہ سوشلسٹ ممالک کے شہریوں کی شناخت ان کی ”حکومت“ سے نتھی ہوتی ہے۔

اگرچہ یہ فلم کسی بھی طرح سے مارکسی نہیں ہے لیکن یہ اس کہانی سے میل نہیں کھاتی جو عام طور پر کیوبن عوام کی انقلاب کے لئے حمایت نہ ہونے کے بارے میں سنائی جاتی ہے۔ سنیما جیسے ثقافتی پلیٹ فارم اکثر یہ خیال پھیلاتے ہیں کہ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کچھ چیزیں غلط ہوجاتی ہیں تاہم بنیادی طور پر یہ سب سے بہتر نظام ہے جس میں لوگ اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح انہیں کرنا چاہیے۔ ”واسپ نیٹ ورک“ نے اس دلیل کو غلط ثابت کیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ سوشلسٹ کیوبا میں دوسرے ممالک کی طرح تنازعات اور حل طلب مسائل بھی ہیں لہٰذا کیوبا کو بد نام کرنے کے لئے اکثر یہ مسائل مدد کرتے ہیں (وینزویلا کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے) دونوں ممالک ایک ہی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ملک کو نارمل انداز میں پیش کرنے کے بجائے ”مضحکہ خیز“ اور دیگر متعدد انداز اختیار کئے جاتے۔

یہاں لوگ انقلابی عمل پر متضاد جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور کیوبا میں رہنے پر خوش ہیں۔ اس سے عوامی سطح پر کیوبا کے انقلاب کی کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ تصویر ملتی ہے جو عام طور پر مغربی میڈیا پر دیکھنے کو نہیں ملتی اور بیرونی دنیا کے بیانئے کے برعکس ایک ایسے ملک کی تصویر کشی ہوتی ہے جہاں کثیر النوع معاشرہ اور حتیٰ کہ جمہوریت بھی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ایک ایسی فلم میں دکھایا گیا ہے جسے نیٹ فلکس نے ریلیز کیا ہے، کسی نظریاتی گروپ نے نہیں، یہ حقیقت دیکھنے والوں کے تعصبات کو زیادہ موثر انداز میں ختم کرتی ہے، جو عام طور پر کئی طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔

حقیقی لوگ

کیوبا کی انٹیلی جنس سروس کے ایجنٹوں کو کارٹونش بدمعاشوں کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے مقاصد کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار رہنے والی شخصیات کے طور پر پیش کرنا یقیناً ہیروز اور ولنز کی معمول کی درجہ بندی کو پریشانی سے دوچار کرتا ہے۔

ظلم و ستم کا شکار ہو کر جمہوریت کیلئے لڑنے کے بجائے منشیات فروشی سے وابستہ دائیں بازو کے دہشت گردوں کو میامی حزب اختلاف کے عسکریت پسندوں کے خلاف لڑتے ہوئے کم از کم پردہ سکرین پر پہلی بار دکھایا گیا ہے۔ فلم کے بعض مقامات پر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انقلابی رہنما نسبتاً ”نارمل“ نظر آتے ہیں۔ فیدل کاسترو کو ایک انٹرویو میں دکھایا جاتا ہے جہاں وہ اپنے اوپر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنے کیلئے کیوبا کے حق پر اصرار کرتے ہیں۔ اسی طرح فوجی افسر عام لوگوں کے ساتھ محض پیادوں کی طرح سلوک کرنے کے بجائے ان سے عام لوگوں کی طرح بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں، مثال کے طور پر ایجنٹ رینی گونزلیز کی اہلیہ اولگا سلانیوا سے ملک سے فرار ہونے کی اصل وجوہات جاننے کے بجائے جو اس طرح کے آپریشن کی خلاف ہے، جوڑے کو میامی میں ایک ساتھ رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

درحقیقت پانچوں ایجنٹوں کی بالآخر امریکہ میں گرفتاری کے بعد کیوبن قیادت نام نہاد ”کیوبا فائیو“ (کیوبا میں انہیں ”پانچ ہیروز“ کے نام سے جانا جاتا ہے) کو آزاد کرانے کی دھن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ میامی میں جیل کی برسوں قید کے دوران ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لئے متحرک عوامی کوششیں اور عوامی اعلانئے جاری ہوئے۔ دباؤ نہ صرف کاسترو کی طرف سے تھا بلکہ ایک وسیع البنیاد عوامی تحریک اور بین الاقوامی یکجہتی کی کوششیں بھی اس کے علاوہ تھیں اور اس آخری نکتے پر دیوہیکل امریکی سامراج کے خلاف اجتماعی کوششوں کی فتح ہوتی ہے، جو فلم کا سب سے اہم حصہ ہے۔

اس میں کیوبا کے پانچ ہیروز کی اصل زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے جنہوں نے دوسروں کی زندگیاں بچانے کی خاطر اپنی آزادی کی قربانی دی۔ پانچوں بالآخر ایک دہائی سے زائد ناجائز قید کے بعد 2011ء اور 2014ء کے درمیان رہا ہو کر ان دنوں آزاد ہیں۔ ان کی فراخ دلی اور عزم کی مثال ان لوگوں کے لئے ایک تحریک ہے جو سوشلسٹ معاشرے میں زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔

صرف ایسے معاشرے میں اجتماعی بہبود کے نام پر دی جانے والی قربانی کو اس کا صلہ ملے گا۔ ”پانچ ہیرو“ اس ”نئے آدمی“ کے بارے میں زندہ ثبوت ہیں جن کے بارے میں چی گویرانے ایک بار کہا تھا”آندھی نما نظریے نے نہیں بلکہ ایک بیج نے کیوبا کے انقلاب میں جڑیں پکڑیں، جو بتدریج پھل پھول رہا ہے“۔

بشکریہ: جیکوبن

Roznama Jeddojehad
+ posts