نقطہ نظر

مسلمان اور ٹیکنالوجی

پرویز امیر علی ہود بھائی

کوئی استثنا ممکن ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت پریس اور لاوڈ اسپیکر، محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں، کیمرے اور ٹیلی ویژن، انتقالِ خون، اعضا کی پیوند کاری یا اِن وٹرو فرٹلائزیشن سے استفادہ کر رہی ہے۔

یہ خوف جو کبھی پایا جاتا تھا کہ ٹیکنالوجی سے ایمان کو خطرہ ہے، اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ گو مذہبی جنونیوں نے پاکستان میں پولیو قطرے پلانے والے درجنوں ورکرز کو ہلاک کیا ہے مگر امید ہے کہ امریکیوں کی نسبت پاکستانی لوگ کرونا کی ویکسین کو زیادہ خوشدلی سے قبول کر لیں گے۔ یہ حوصلہ افزا بات ہے۔

مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ان دنوں آپ صلوۃ کارڈ خرید سکتے ہیں۔ پراکسیمیٹی سنسر سے مزین یہ صلوۃ کارڈ اس بات کی گنتی کرتا ہے کہ آپ نماز کے دوران کتنی رکعت ادا کر چکے ہیں۔ وژول سنسر سے مزین، ماحول دوست وضو مشین بھی آن لائن خریدی جا سکتی ہے۔

اس شکایت کے پیش نظر کہ بہت سے موذن حضرات کی آواز ہی سماعت پر گراں نہیں گزرتی اُن کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا، مصر کی حکومت ایک نیا تجربہ کر نے جا رہی ہے: 113 مساجد میں بیک وقت کمپیوٹر سے معیاری اذان دی جائے گی۔ چند سال پہلے تک ایسی کسی کوشش کے خلاف سینکڑوں فتوے دئیے جا نے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔

سائنس کے حوالے سے کیا صورتحال ہے جو ٹیکنالوجی کا اصل منبع ہے؟

محض ٹیکنالوجی کے استعمال سے ظاہرہے مذہب اور سائنس کے مابین تنازعہ حل نہیں ہو جاتا۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کا یہ مطلب بھی نہیں کہ دنیا کو سمجھنے کے حوالے سے سائنسی نقطہ نظر ترویج پا رہا ہے۔ ثانی الذکر خیال سے متاثر ہو کر’ٹاسک فورس رپورٹ 2020ء‘ ترتیب دی گئی۔ اس رپورٹ میں اسلامی دنیا کے اندر سائنس کے کلچر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ پروفیسر ندل غصام (اردن) اور ڈاکٹر منیف زوبی نے پاکستان کے ڈاکٹر اطہر اسامہ کی مدد سے پیش کی ہے۔ ان کی جانب سے کئے گئے آن لائن سروے سے کچھ عندیہ ملتا ہے۔

ایک طرح سے تو اس رپورٹ کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ سروے میں شامل 3,500 افراد، جن کی اکثریت عرب دنیا اور پاکستان سے تعلق رکھتی ہے، کا بنیادی سائنسی حقائق بارے علم ترقی یافتہ ممالک کی نسبت تھوڑا بہتر ہے۔ رپورٹ کے مصنفین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے حیران کن نتیجے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سروے میں ان افراد کو شامل کیا گیا جو نسبتاً پڑھے لکھے تھے اور انٹرنیٹ کا بخوبی استعمال جانتے تھے۔ اس کے باوجود یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ نتائج بہت غلط نہیں ہیں۔

اگر یہ سروے درست بھی مان لیا جائے تو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ سائنسی حقائق کا علم ہونا اور سائنسی نقطہ نظر رکھنا دو مختلف باتیں ہیں۔ یہ وہی فرق ہے جو یو ایس بی (USB) اور سی پی یو چِپ میں ہوتاہے۔ یو ایس بی میں ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے جبکہ سی پی یو آپ کے لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون میں فیصلہ سازی کرنے والے دماغ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یو ایس بی غیر فعال، ارزاں قیمت اور آسان ہے۔ یو ایس بی متحرک، بیش قیمت اور پیچیدہ ہے۔

اسی طرح ایک روایتی ذہن کے لئے علم سے مراد ہے ابدی اصولوں پر مبنی کتابوں کا علم جسے حاصل کیا جا سکتا ہے، محفوظ بنایا جا سکتا ہے اور پھیلایا جا سکتا ہے، سمجھا جا سکتا ہے اور اس پر عمل کیا جا سکتا ہے مگر اس میں اضافہ یا رد و بدل ممکن نہیں۔ اس کے برعکس سائنسی سوچ اس حقیقت پر مبنی ہوتی ہے کہ نئے تصورات تشکیل دئیے جائیں، ان کو پرکھا جائے اور اگر تجربات کی روشنی میں کوئی مفروضہ غلط ثابت ہوا ہے تو اسے ترک کر دیا جائے۔ تجزئے پر مبنی استدلال اور تخلیقی صلاحیت اہم ہوتے ہیں۔ سوال یاد کر لینا اہم نہیں ہوتا۔

مندرجہ بالا رپورٹ کے مطالعے سے مجھ پر یہ تو واضح نہیں ہوا کہ کیا سروے میں کئے گئے سوالات، یا ان کے جوابات، سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلم دنیا سائنسی نقطہ نظر کی جانب مائل ہے یا نہیں۔ شائد سروے کرنے والوں نے یہ سوچا ہو کہ تیکھے سوالات انہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں مگر انہوں نے سائنس کی ترویج کے لئے آزادی، کھلے پن اور تنوع پر پر جو زور دیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔

سائنس اور سائنسی سوچ کو فروغ دینا مشکل کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنس عام طور پر انسان کو ایسے حقائق بتاتی ہے جو عام فہم نہیں ہوتے۔ روز مرہ کی زندگی میں بعض اوقات ہم سائنس کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں۔ بچپن میں ہم سیکھتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد چکر کاٹ رہی ہے مگر اس کے باوجود ہم سورج کے طلوع اور غروب کی بات کرتے ہیں۔

ایک اور مثال: یہ درست ہے نا کہ بھاری چیزیں زمین پر جلدی گرتی ہیں؟ یہ اتنی واضح بات ہے کہ کبھی کسی نے تجربہ کرنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تا آنکہ 400 سال پہلے گیلیلو نے تجربہ کر کے اسے غلط ثابت کیا۔

کیا یہ اچھا نہ ہوتا اگر طبیعات اور حیاتیات کے اصول اور ہماری جبلی سوچ یا مذہبی عقائد میں کوئی تصادم نہ ہوتا؟ یا یہ کہ ڈارون غلط ہوتا اور زندگی تغیر کے ذریعے ارتقا پزیر نہ ہوئی ہوتی؟ سچ تو یہ ہے کہ سائنس عجیب و غریب حقائق کا ایک وسیع مجموعہ ہے۔ سچ تک پہنچنے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے لہٰذا آپ میں بہت زیادہ لگن اور تجسس ہونا چاہئے۔

یہ تجسس کی کمی ہی تھی جس کے ہاتھوں مسلم تہذیبیں شکست و ریخت کا شکار ہوئیں۔ عربوں کے سنہری دور کا خاتمہ ہوا تو سائنسی روح بھی دم توڑ ہو گئی۔ 17 ویں صدی کے عثمانی سلطان اس قدر امیر تھے کہ بحری جہاز اور توپیں بنوانے کے لئے یورپی ماہروں کی خدمات حاصل کر لیتے (ان دنوں چینی تھے نہیں)۔ علمائے کے زیر اثر چلنے والے عثمانی نظام ِتعلیم میں اتنی سکت تھی نہیں کہ ماہرین پیدا کر سکے۔

جدید سائنسی تصورات سے لبریز برطانیہ سے نئی ایجادات اور اشیا لے کر جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پہنچی تو مغلوں نے پیسوں کے عوض ان سے یہ سب خرید لیا۔ مغلوں نے یہ جاننے کا تردد کبھی نہیں کیا کہ یہ ایجادات تخلیق کیسے ہوتی ہیں یا یہ کہ ان کی نقل کیسے تیار کی جا سکتی ہے۔

سائنسی کلچر کے بغیر کوئی ملک یا تو صارفین کا معاشرہ بن سکتا ہے یا تجارت کر سکتا ہے۔ پاکستان دکانداروں، پراپرٹی ڈیلروں، مینجرز، ہوٹلیرز، اکاونٹنٹس، بنکرز، فوجیوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی قوم ہے۔ چند ہی اچھے شاعر اور لکھاری ہیں۔ پاکستان کرونا کی کوئی ویکسین نہیں بنا سکا۔ جو مٹھی بھر حقیقی سائنس دان اور محقق ہیں، ان کی مدد سے بہت کم نیا علم یا اشیا پیدا ہو رہی ہیں۔

ادھر یہ خبر بالکل غلط ثابت ہوئی کہ پاکستان کے 81 سائنس دانوں کو سٹینفورڈ یونیورسٹی نے کسی فہرست میں دنیا کے ٹاپ دو فیصد میں شامل کیا ہے۔ اس انتہائی مشکوک فہرست کے ساتھ سٹینفورڈ یونیورسٹی کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان آئینیڈس نے مجھے اپنی ایک ای میل میں اس بات کی تصدیق کی۔ اس رپورٹ میں پروفیسر جان کو مذکورہ فہرست تیار کرنے والے تین مدوین میں سے ایک کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

مسلم دنیا میں سائنس کی واپسی کے لئے کیا کیا جائے؟ ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ جس طرح مسلمان ملکوں میں موسیقی اور مذہب، جو آپس میں میل نہیں کھاتے، شانہ بشانہ رہ رہے ہیں۔ کسی بھی پاکستانی ایف ایم سٹیشن پر یہ معمول کی بات ہے کہ لیڈی گاگا کے گانے کو روک کر اذان کا وقفہ کر لیا جائے۔ اذان کی مسحور کن ریکارڈنگ چلانے کے بعد، اگلے وقفہ اذان تک بیونسی کے گانے چلا دئے جائیں۔ گو موسیقی کا انتخاب اتنا با ذوق نہیں ہوتا مگر اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیا اور دین کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ علیحدگی بہت ضروری ہے۔ جب گیلیلیو نے یہ کہا تھا کہ ”انجیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آسمانوں میں موجود جنت تک کیسے پہنچنا ہے نہ کہ آسمان کیسے حرکت کرتے ہیں‘ تو اس کا مدعا یہی تھا کہ عقیدہ اور سائنس دو علیحدہ شعبے ہیں۔ مغرب، چین اور ہندوستان نے اسی طرح جدید سائنسی کلچر کو فروغ دیا ہے۔ قرنوں پہلے مسلم علما نے یونانی فلسفے کا علم حاصل کرتے ہوئے اپنے عقیدے کو اپنی ذات تک محدود رکھا۔ اس کے نتیجے میں کئی اہم ایجادات اور دریافتیں سامنے آئیں۔ کسی کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے، سائنسی کلچر کے فروغ کا اور کوئی راستہ نہیں۔

Pervez Hoodbhoy
+ posts

پرویز ہودبھائی کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا شعبہ نیوکلیئر فزکس ہے۔ وہ طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔