لاہور (جدوجہد رپورٹ) حقوق خلق موومنٹ کے رہنماؤں نے گذشتہ روز لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قابل تجدید توانائی کے استعمال پر زور دیا۔ اس پریس کانفرنس سے فاروق طارق، آئمہ کھوسہ، زیاد فیصل، پروفیسر ضیغم عباس، سدرہ اقبال، خالد محمود، مزمل خان، ڈاکٹر ایمن رشید اور مرتضیٰ باجوہ نے خطاب کیا۔ پریس کانفرنس کا متن ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
”ملک بھر میں 9 جنوری کو بلیک آؤٹ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا، اس سے قبل این ایل جی کی امپورٹس پر اندازوں سے زیادہ رقم خرچ ہوئی، ملک بھرمیں گیس کی کمی کا نقصان لاکھوں گھریلو اور صنعتی صارفین کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ گیس اور آئل سے بجلی پیدا کرنے کا جو طریقہ کار ہے وہ بہت مہنگا ہے۔ درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے اورملکی زرِمبادلہ کا ایک بڑا حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے۔ ملک میں موجود انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس حکومت کوبلیک میل کرتے ہیں اور انتہائی مہنگی بجلی حکومت کوفروخت کرتے ہیں۔ اس تمام پس منظر میں ہم ایک متبادل نقطہ نظرلے کر آئے ہیں۔
ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قابل تجدید توانائی کے استعمال کو فوری تیز کیا جائے جبکہ آئل اورگیس سے بجلی بنانے کے طریقوں کو بتدریج ختم کر دیا جائے۔ پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے تیل اور گیس سے بجلی بنانا معاشی اور ماحولیاتی تباہی ہے۔ پاکستان موسمی تغریات اور گرتی معیشت کا شکار ملک ہے۔ درآمد شدہ فیول پرانحصار کرنے سے بجلی بنانے میں کمی اور مہنگی ہو رہی ہے جو پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے اور بڑھتے موسمی تغریات کا باعث ہے۔
اس وقت بجلی کی پیداوار اور استعمال میں تقریباً 5000 سے 8000 میگا واٹ کا فرق ہے جو کہ سالانہ 6 سے 8 فیصد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کمی کوپورا کرنے کے لیے ہمیں فوری طورپر ایسی توانائی کی پیداوار کی ضرورت ہے جو قابل تجدید ہو اور اس کی پیداوار کو برقرار اور مسلسل بڑھایا جا سکے۔
پاکستان قابل تجدید توانائی کے بے شمار ذخیروں کا ملک ہے جیساکہ ہوا، شمسی توانائی، چھوٹی سطح کے ہائیڈرو ذخائر، سمندری اور لہر توانائی، زمین کی اندرونی حرارت کی طاقت یعنی جیو تھرمل پاور، ان قدرتی ذرائع کے استعمال میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان کی توانائی کی ضرورتوں کوپورا کر سکے اور موسمی تغریات میں کمی لا سکے اور قابل تجدید توانائی ذرائع کو توانائی ترقی سے مسلسل جوڑ سکے۔ پاکستان میں اس وقت توانائی کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع میں قدرتی گیس 27 فیصد، تیل 38 فیصد، کوئلہ 3 فیصد اور ہائیڈرو 32 فیصد شامل ہیں۔
پاکستان میں قابل تجدید توانائی ذرائع بے شمار ہیں جنکا استعمال، پیداوار اور مینجمنٹ مقامی کمیونٹیز کے تعاون سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ ان ذرائع کے ذریعے طویل عرصہ تک قابل تجدید توانائی کی پیداوار غیرملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مداخلت کے بغیر کی جا سکتی ہے لہٰذا ان ذرائع کی مستحکم ترقی کے ذریعے پاکستان توانائی سے درپیش چیلنجوں کا بخوبی مقابلہ کر سکتا ہے۔
ریسرچ بتاتی ہے کہ 100 سکوائر کلومیٹر میں شمسی فوٹو والٹک پاور جنریشن کی 14 فیصد تک صلاحیت موجود ہے اور یہ پورے ملک کے رقبے کا صرف 0.01 فیصد ہے۔ یہ اتنی توانائی بنا سکتا ہے جس کے لیے 30 ملین ٹن تیل کی ضرورت ہو گی۔ حکومت اس پر فوری طور پر عمل کرنے کے لیے سرکاری عمارتوں کی چھتوں کوپی وی سسٹم کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اسے گھروں کی چھتوں پر بھی فوری طورپر شروع کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور ریسرچ سٹڈی کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں چھوٹی سطح کے ہائیڈرو، ہوا، شمسی اور زیرزمین حرارت سے توانائی پیداوار کے بے شمارذرائع موجود ہیں۔ اس صلاحیت کے استعمال سے توانائی سپلائی مارکیٹ میں مختلف ذرائع نظر آ سکتے ہیں۔ توانائی کو مقامی کمیونٹیز کے حوالے کیا جا سکتا ہے جو اسکی پیداوار اور استعمال کو بہتر ممکن بنا سکتی ہے۔ اس طرح ہمیں ماحولیاتی آلودگی اورتیل کی درآمد پرانحصار سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
یونائیڈ سٹیٹس انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی (یو ایس ایڈ) کے مطابق پاکستان میں ہوا سے توانائی کے کل ذرائع 346,000 میگا واٹ بجلی بنا سکتے ہیں جبکہ 120,000 میگا واٹ کو نیشنل گرڈ کے توانائی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا کل 796,096 سکوائر کلومیٹر رقبہ 62 اور 75 طول البلد اور عرض البلد کے مشرق میں اور 24 اور 37 شمال میں واقع ہے۔ یہ ایک منفرد جیوگرافیکل علاقہ ہے جس میں شمسی توانائی پیدا کرنے کی آئیڈیل صورتحال موجود ہے۔
متبادل توانائی ترقی بورڈ (AEDB) پاکستان کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی کے 2900 گیگا واٹ صلاحیت موجود ہے۔ اس کے استعمال میں چار مرکزی رکاوٹیں ہیں جن میں پیشگی قیمت، ٹیکنالوجی کی کمی، سماجی و سیاسی رویے اور حکومتی پالیسیوں میں تنازعے شامل ہیں۔
گیس اور آئل سے بجلی بنانے کے ماحولیاتی نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ تیل جل جانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس اخراج چھوڑتا ہے۔ یہ گیسیں ہوامیں اکٹھی ہو کر گلوبل وارمنگ کاباعث بنتی ہیں۔ پاکستان اس وقت گلوبل وارمنگ سے بہت زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ گیس اور تیل سے بجلی بنانے کے عمل سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ مقامی سطح پر ہواا ور پانی کو گندا کرتا ہے۔ پاکستان بجلی بنانے کے لیے گیس اور تیل درآمد کرتا ہے اس لیے یہ سارا عمل بہت مہنگا ہو گیا ہے اور ہماری معیشت اس کے شدید دباؤ میں ہے۔ آئل اور گیس دونوں قابل تجدید ذرائع نہیں ہیں لہٰذا پاکستان جیسی نوخیز معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
گیس اور آئل سے بجلی بنانے کے منفی ماحولیاتی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ پاور پلانٹس کے صنعتی فضلہ جات کے اخراج اور آئل ٹرانسپورٹ میں حادثات سے پانی آلودگی کا شکار ہوتا ہے، پاورپلانٹ آپریشن میں تیل کے جلنے اور آئل کی آلودگی سے جنگلات، فصلوں اور جانوروں کا نقصان ہوتاہے۔ پلانٹ آپریشن کے دوران CO2 اور GHGs کی ریلیز، پیداوار اورپلانٹ تعمیرات سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔
موسمی تغیرات پر بڑھتی تشویش کے باعث اور اس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے پاکستان کو فوری طور پر قابل تجدید توانائی ذرائع کی پیداوار کی طرف شفٹ کرنا چاہیے۔ آئل اور گیس سے بجلی بنانے کے تمام ذرائع کا رخ بتدریج شمسی، ہوا، چھوٹی سطح کے ہائیڈرو پاور اور بجلی پیداوار کی طرف موڑ دیا جائے۔ قابل تجدید اورناقابل تجدید توانائی ذرائع میں فاصلہ مسلسل کم کیا جائے۔ سندھ اور پنجاب کے علاقوں سے کوئلے، تیل اور گیس سے بجلی بنانے کے تمام ذرائع کو ختم کرنے کے منصوبوں اور ان پر عمل درآمد سے ماحولیاتی انصاف کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔“