فرحت اللہ بابر
اپنے پیش رو کے برعکس فوج کے موجودہ ترجمان ِاعلیٰ میجر جنرل افتخار مبالغہ آرائی، ہلے گلے یا خود نمائی سے پرہیز کرتے آئے ہیں البتہ گذشتہ ہفتے (پیر کے روز) وہ خود پر قابو نہ رکھ سکے اور پی ڈی ایم کے رہنما مولانا فضل الرحمن کو جواب دینا لازمی سمجھا۔ مولانا کو جواب دیتے ہوئے ترجمانِ اعلی توازن برقرار رکھ سکے نہ معروضیت۔
پیر کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حزب اختلاف کے اس الزام کو رد کر دیا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی جانب سے راولپنڈی تک مارچ کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ ڈھکے چھپے مگر بامعنی انداز میں انہوں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف راولپنڈی آئی تو ان کی ’چائے پانی‘ سے تواضع ہو گی۔ ’چائے پانی‘ سے کچھ بھی مراد لی جا سکتی ہے۔
حاضر جواب مولانا نے بھی جوابی بیان داغنے میں دیر نہیں لگائی۔ ”آپ خود پیزے کھائیں اور ہمیں صرف چائے پانی پر ٹرخائیں“ مولانا گویا ہوئے۔ اس ایک جملے میں مولانا نے وہ کچھ کہہ دیا جسے ایک ہزار الفاظ میں بھی بیان نہیں ہو سکتا۔
پریس کانفرنس کا یہ پہلو اپنی جگہ مگر یہ دعویٰ کہ 2018ء کے عام انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی، یا یہ کہنا کہ ”ہم نے پوری ایمانداری اور ذمہ داری سے انتخابات کرائے“، یا یہ مشورہ کہ ”ملکی ادارے آزادانہ کام کر رہے ہیں اور شکایت کی صورت میں ان اداروں سے رجوع کیا جائے“…توجہ کے طالب ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ باآسانی سے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ”فوج کو سیاست میں مداخلت کی ضرورت نہیں، نہ ہی فوج کو سیاست میں گھسیٹا جائے“۔ یہ مت سمجھا جائے کہ اس دعوے پر لوگ محض اس لئے تسلیم کر لیں گے کہ ایک باوردی فرد یہ دعویٰ کر رہا ہے۔
یہ بیان داغتے ہوئے ترجمان اعلیٰ بھول گئے کہ موجودہ حقائق ہی نہیں، تاریخ، اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے، پارلیمانی مباحث اور بعض جرنیلوں کے اپنے اعترافات کوئی اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ کوئی اپنے ضمیر کو حاضر ناظر جان کر یہ بیان کیسے دے سکتا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ملکی تاریخ کا نصف عہد مارشل لا کی چھتری تلے گزرا ہے؟ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی جماعتوں کو جوڑ کر آئی جے آئی کی تشکیل کا انکار کیسے ممکن ہے؟ کیا ایک سابق آئی ایس آئی چیف اور سپریم کورٹ نے یہ سب تسلیم نہیں کیا تھا؟
براہ راست فوجی آمریتیں تو ایک جانب، جب یہ لگا کہ اب فوجی آ مریتوں کو عالمی حمایت نہیں مل سکتی اور ان کا دور گزر گیا ہے تو حکومتوں کو ریموٹ کنٹرول سے چلانے کا سلسہ شروع ہوا۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے؟ کیا اس پریشان کن رجحان کی تردید ممکن ہے کہ سول عہدوں اور ملکی معیشت کے اہم حصوں پر فوج قابض ہوتی جا رہی ہے؟
سول عہدوں پر قبضے کی ایک پریشان کن مثال تو ڈی جی ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس (ایم ایل سی) ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے اس عہدے پر ایک حاضر سروس میجر جنرل براجمان ہے جو نہ صرف قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے بلکہ عدالتی ہدایات کی بھی خلاف ورزی ہے جبکہ پارلیمنٹ بھی اس کے خلاف ہے۔ ڈی جی ایم ایل سی ان زمینوں کو ریگولیٹ کرتا ہے جو دفاعی ا فواج کے زیر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ عہدہ حاصل کر کے فوج ریاستی زمین کی ریگولیٹر بھی بن گئی ہے۔ ماضی میں اگر لوگ ملٹری لینڈ کے استعمال اور الاٹمنٹوں پر انگلیاں اٹھاتے رہے ہیں تو یہ بلاوجہ نہیں ہے۔
ملکی معیشت میں منظم مداخلت کے نتیجے میں ڈی ایچ ایز ملک کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر بن چکے ہیں، ایف ڈبلیو اُوسب سے بڑا کنٹریکٹر، فوجی فاؤنڈیشن سب سے بڑا کاروباری، صنعتی اور تجارتی گروپ جبکہ این ایل سی اگر ملک کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ گروپ نہیں تو ملک کے بڑے ٹرانسپورٹ اداروں میں سے ایک ضرور ہے۔ حال ہی میں ایف ڈبلیو اُو نے اپنے ایک ذیلی ادارے کی وساطت سے تیل کے کاروبار میں بھی ہاتھ ڈال دیا ہے۔
2006ء میں جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو اس کے نتیجے میں اہم آئینی و سیاسی پیش رفتوں کے لئے راستہ ہموار ہوا۔ عام انتخابات کے بعد پر امن اور جمہوری انتقال اقتدار، اٹھارویں آئینی ترمیم، صوبائی خودمختاری اور این ایف سی ایوارڈ گذشتہ دہائی کی اہم ترین کامیابیاں ہیں۔ لگتا ہے فوج کو یہ سب پسند نہیں آیا کیونکہ اس کا مطلب ہے اختیارات میں کچھ کمی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ریموٹ کنٹرول حکومت اور ہا ئبرڈ گورننس کو منظم کیا جا رہا ہے۔
یہ کوئی بے پر کی افواہ نہیں کہ فوج معاملات چلا رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اگر اس مسئلے سے نپٹنا ہے تو اسے پہلے تسلیم کرنا ہو گا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں پاکستان کو ڈیپ سٹیٹ قرار دیا تھا، یعنی ایک ایسی ریاست جہاں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں معاملات چلا رہی ہوں۔ یہ بیان موجودہ پاکستان کی بہترین تصویر کشی ہے۔
نومبر 2017ء میں ہونے والے فیض آباد دھرنے کو کون بھلا سکتا ہے جب متشدد مذہبی جنونیوں نے اسلام آباد کا گھیراو کیا اور سول حکومت خطرے سے دو چار ہوئی؟ یہ دھرنا تب ہی ختم ہوا جب فوج نے ایک معاہدہ کرایا جس کے نتیجے میں سول حکومت کی سبکی ہوئی۔ ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی وردی میں ملبوس ایک اعلیٰ عہدیدار دھرنے میں شرکت کرنے والوں کو ’سفری خرچہ‘ کرنے کے لئے پیسے تقسیم کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ جج قاضی فیض عیسیٰ نے اس مقدمے میں ایک تاریخی فیصلہ دیا۔ بجائے اس فیصلے پر عمل کرنے کے، جسٹس فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس بنا دیا گیا۔
فوج کے ترجمان اعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پچھلے عام انتخابات میں فوج نے صرف سکیورٹی فراہم کی اور انہوں نے کسی قسم کی دھاندلی میں ملوث ہونے کی تردید کی۔ کاش انہوں نے عالمی مبصرین کی رپورٹ پڑھی ہوتی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح انتخابات کی تیاری کے دوران ایسے اقدامات کئے گئے جن کے نتیجے میں کچھ اہم سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچا۔
رٹے رٹائے جملے دہرانے سے یہ حقیقت نہیں بدل جاتی کہ فوج آئین و قانون کے خلاف سیاست میں مداخلت کر رہی ہے اور یہ کہ ہائبرڈ سسٹم ایک حقیقت ہے۔ اگر فوج چاہتی ہے کہ اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے تو وہ سیاسی کردار ادا کرنا بند کرے۔
بشکریہ: دی فرائیڈے ٹائمز